عربی ہفتم دورہ حدیث شریف

Naats

اہم مسئلہ

مسجد میں جگہ روکنا کیسا ہے؟ مسجد میں کسی شخص کا اپنا رومال ، ٹوپی یا مصلی رکھ کر جگہ روک لینا مکروہ ہے، اور وہ شخص اس صورت میں اس جگہ کا مستحق نہ ہوگا، بلکہ مسجد میں پہلے پہنچ کر جو شخص جس جگہ بیٹھ جائے وہی اس کا حقدار ہے ، ہاں اگر کوئی شخص مسجد میں کسی جگہ کچھ دیر عبادت کرے پھر کسی ضرورت سے تھوڑی دیر کے لیے جانا چاہے اور رومال وغیرہ رکھ کر جگہ روک لے تو یہ جائز ہے اور وہ اس جگہ کا حقدار ہو گا ۔(اہم مسائل/ج:۲/ص:۱۸۷)

حدیث الرسول ﷺ

قَالَ أَنَسٌ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينًا. وَإِنَّ أَمِينَنَا، أَيَّتُهَا الْأُمَّةُ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ(مسلم شریف: ۲۴۱۹)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” ہر امت کا کوئی ”امین“ ہوتا ہے اور ہمارا امین “ اے میری امت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن الجراح ہیں“(تفہیم المسلم)

تحقیق المسائل

سوال:ذیل میں درج شدہ مسئلہ کے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔اُمید ہے تفصیلی دلائل سے واضح فرمائیں گے۔قرآن مجیدکے متعلق ایک طرف تویہ کہا جاتا ہے کہ یہ بعینہٖ اُسی صورت میں موجود ہے جس صورت میں حضور اکرمﷺ پرنازل ہواتھا۔ حتیٰ کہ اس میں ایک شوشے یا کسی زیر، زبر کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن دوسری طرف بعض معتبر کتب میں یہ درج ہے کہ کسی خاص آیت کی قراء ت مختلف طریقوں سے مروی ہے جن میں اعراب کا فرق عام ہے۔بلکہ بعض جگہ تو بعض عبارات کے اختلاف کاذکر تک کیا گیا ہے۔ اگر پہلی بات صحیح ہو تواختلاف قراء ت ایک مہمل سی بات نظر آتی ہے، لیکن اس صورت میں علماء کا اختلاف قراء ت کی تائید کرناسمجھ میں نہیں آتا اور اگر دوسری بات کوصحیح مانا جائے تو قرآن کی صحت مجروح ہوتی نظر آتی ہے۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اِعراب کے فرق سے عربی کے معانی میں کتنافرق ہوجاتا ہے۔یہاں میں یہ عرض کردینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ منکرین حدیث کی طرف میرا ذرہ بھر بھی میلان نہیں ہے بلکہ صرف مسئلہ سمجھنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کررہا ہوں۔ جواب: یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ قرآن مجید آج ٹھیک اسی صورت میں موجود ہے جس میں وہ نبیﷺ پر نازل ہواتھا اور اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بات بھی اس کے ساتھ قطعی صحیح ہے کہ قرآن میں قراء توں کا اختلاف تھا اور ہے۔ جن لوگوں نے اس مسئلے کا باقاعدہ علمی طریقے پرمطالعہ نہیں کیا ہے وہ محض سطحی نظر سے دیکھ کر بے تکلف فیصلہ کردیتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں اور ان میں سے لازماً کوئی ایک ہی بات صحیح ہوسکتی ہے،یعنی اگر قرآن صحیح طور پر حضورﷺسے نقل ہوا ہے تو اختلافاتِ قراء ت کی بات غلط ہے اور اگر اختلافِ قراء ت صحیح ہے تو پھر معاذ اللہ قرآن ہم تک صحیح طریقے سے منت

//