تاریخ دعوت و عزیمت جلد ١

حدیث الرسول ﷺ

سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلَاةِ وَإِذَا كَانَ الْبَرْدُ عَجَّلَ(نسائی شریف: ۵۰۰)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب گرمی ہوتی تو رسول اللہ ﷺ نماز ظہر کو ٹھنڈی کر کے پڑھتے تھے اور جب سردی ہوتی تو جلدی پڑھتے ۔

آیۃ القران

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَفْعَلُوْۤا اِلٰۤى اَوْلِیٰٓئِكُمْ مَّعْرُوْفًا كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا(۶)(سورۃ الاحزاب)

ایمان والوں کے لیے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں، اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ اس کے باوجود اللہ کی کتاب کے مطابق پیٹ کے رشتہ دارو دوسرے مومنوں اور مہاجرین کے مقابلے میں ایک دوسرے پر (میراث کے معاملے میں) زیادہ حق رکھتے ہیں الا یہ کہ تم اپنے دوستوں (کے حق میں کوئی وصیت کر کے ان) کے ساتھ کوئی نیکی کرلو۔ یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔(۶)(آسان ترجمۃ القران) یعنی : یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ اگرچہ حضور نبی کریم ﷺ تمام مسلمانوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں، اور آپ کی ازواج مطہرات کو سب مسلمان اپنی ماں سمجھتے ہیں، لیکن اس وجہ سے آنحضرت ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کو میراث کے معاملے میں کسی مسلمان کے اپنے رشتہ داروں پر فوقیت حاصل نہیں ہوئی، چنانچہ جب کسی کا انتقال ہوتا ہے تو اس کی میراث اس کے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم ہوتی ہے، آنحضرت ﷺ یا آپ کی ازواج مطہرات کو اس میں سے کوئی حصہ نہیں دیا جاتا، حالانکہ دینی اعتبار سے آپ اور آپ کی ازواج مطہرات دوسرے رشتہ داروں سے زیادہ حق رکھتی ہیں۔ جب آنحضرت ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کو ان کے دینی رشتے کے باوجود میراث میں شریک کیا گیا تو منہ بولے بیٹے کو محض زبان سے بیٹا کہہ دینے کی بنا پر میراث میں کیسے شریک کیا جاسکتا ہے ؟ البتہ اگر ان کے ساتھ نیکی کا ارادہ ہو تو ان کے لیے اپنے ترکے کے تہائی حصے کی حد تک کوئی وصیت کی جاسکتی ہے۔(آسان ترجمۃ القران)

حضرت سلمان فارسی رضي اللہ عنہ کی نصیحتیں

حضرت جعفر بن برقان کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی کہ حضرت سلمان فارسیؓ فرمایا کرتے تھے مجھے تین آدمیوں پر ہنسی آتی ہے اور تین چیزوں سے رونا آتا ہے ایک تو اس آدمی پر ہنسی آتی ہے جو دنیا کی امیدیں لگا رہا ہے حالانکہ موت اسے تلاش کر رہی ہے دوسرے اس آدمی پر جو غفلت میں پڑا ہوا ہے اور اس سے غفلت نہیں برتی جا رہی یعنی فرشتے اس کا ہر برا عمل لکھ رہے ہیں اور اسے ہر عمل کا بدلہ ملے گا تیسرے منہ بھر کر ہنسنے والے پر جسے معلوم نہیں ہے کہ اس نے اپنے رب کو خوش کر رکھا ہے یا ناراض - اور مجھے تین چیزوں سے رونا آتا ہے پہلی چیز محبوب دوستوں یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی جماعت کی جدائی دوسری موت کی سختی کے وقت آخرت کے نظر آنے والے مناظر کی ہولناکی تیسری اللہ رب العالمین کے سامنے کھڑا ہونا جب کہ مجھے یہ معلوم نہیں ہوگا کہ میں جہنم میں جاؤں گا یا جنت میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس دنیا میں مومن کی مثال اس بیماری جیسی ہے جس کا طبیب اور معالج اس کے ساتھ ہوں جو اس کی بیماری اور اس کے علاج دونوں کو جانتا ہو جب اس کا دل کسی ایسی چیز کو چاہتا ہے جس میں اس کی صحت کا نقصان ہو تو وہ معالج اسے اس سے منع کر دیتا ہے اور کہہ دیتا ہے اس کے قریب بھی نہ جاؤ کیوں کہ اگر تم نے اسے کھایا تو یہ تمہیں ہلاک کر دے گی اسی طرح وہ معالج اسے نقصان دہ چیزوں سے روکتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ بالکل تندرست ہوجاتا ہے اور اس کی بیماری ختم ہو جاتی ہے اسی طرح مومن کا دل بہت سی ایسی دنیاوی چیزوں کو چاہتا رہتا ہے جو دوسروں کو اس سے زیادہ دی گئی ہیں لیکن اللہ تعالی موت تک اسے ان سے منع کرتے رہتے ہیں اور ان چیزوں کو اس سے دور کرتے رہتے ہیں اور مرنے کے بعد اسے جنت میں داخل کر دیتے ہیں۔(حیاۃ الصحابہ)

Naats

اہم مسئلہ

داڑھی تراشنے اور منڈوانے والے کے یہاں دعوت کھانا؟ حدیث میں آیا ہے کہ فاسق لوگوں کی دعوت قبول نہ کی جائے اور داڑھی منڈوانے اور ترشوانے والے لوگ بھی چوں کہ فاسق ہیں، اس لئے اگر مصلحت کے خلاف نہ ہو تو اُن لوگوں کی دعوت رد کی جاسکتی ہے، خاص کر جب کہ مجلس دعوت میں منکرات ہوں ، تو ممانعت کا حکم اور تاکیدی ہو جاتا ہے۔(کتاب النوزل/ج:۱۶/ص:۷۵)

//