فضائل اعمال جلد دوم

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ(بُخاری شریف: ۱۱۹۰)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری اس مسجد میں نماز مسجد حرام کے سوا تمام مسجدوں میں نماز سے ایک ہزار درجہ زیادہ افضل ہے ۔

آیۃ القران

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)(سورۃ البقرہ)

جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اگائے (اور) ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے (ثواب میں) کئی گنا اضافہ کردیتا ہے، اللہ بہت وسعت والا (اور) بڑے علم والا ہے۔(۲۶۱)(آسان ترجمۃ القران) یعنی: اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے سات سوگنا ثواب ملتا ہے اور اللہ تعالیٰ جس کا ثواب چاہیں اور بڑھا سکتے ہیں، واضح رہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کا قرآن کریم نے بار بار ذکر کیا ہے اور اس سے مراد ہر وہ خرچ ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا جائے اس میں زکوٰۃ صدقات اور خیرات سب داخل ہیں۔(آسان ترجمۃ القران)

Download Videos

علماء خشک کی ناقدری کا سبب

اگر کسی خیمہ پر لکھا ہو خیمۂ لیلیٰ لیکن اس میں جھانک کر دیکھا تو اندر کتا بندھا ہوا ہے تو اس خیمہ کی قدر نہ ہوگی بلکہ لوگ مذاق اُڑائیں گے۔ اسی طرح مولوی وہ ہے جو مولیٰ والا ہو اس کے خیمۂ محمل سے خوشبوئے مولیٰ ملنی چاہیے یعنی اس کی صحبت میں اللہ کی محبت کی خوشبو آنی چاہیے‘ اس کی صحبت سے اللہ کی محبت پیدا ہو اور دنیا کی محبت دل سے نکلے چنانچہ جو اللہ والے مولوی ہیں ان کی خوشبو سے ایک عالم مست ہوتا ہے ایسے ہی اللہ والے علماء سے دین پھیلا ہے اور ہمارے تمام اکابر اس کی مثال ہیں لیکن جو مولوی اللہ والوں سے مستغنی رہتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں مٹاتے اور عوام ان کو مولیٰ والا سمجھ کر ان کے پاس آتے ہیں لیکن جب دیکھتے ہیں کہ ان کے خیمہ میں تو حُبِّ دنیا اور حُبِّ جاہ کا کتا بندھا ہوا ہے اور مولیٰ ندارد‘ تو بہت مایوس ہوتے ہیں‘ آج کل اہلِ علم کی بے قدری اسی سبب سے ہے ورنہ جو علماء اہل اللہ کےصحبت یافتہ ہیں مخلوق آج بھی ان پر فدا ہے۔

Naats

اہم مسئلہ

اقامت کے جواب کا طریقہ جس طرح زبان سے اذان کا جواب دینا مستحب ہے، اسی طرح اقامت کا جواب دینا بھی مستحب ہے، مکبر جو کلمہ کہے جواب دینے والا بھی دو وہی کلمہ کہے، البتہ حی علی الصلوۃ “ اور ”حی علی الفلاح میں ” لا حول ولا قوة إلا باللہ کہے، اور ” قد قامت الصلوۃ کے جواب میں ” اقامہا اللہ و ادامہا“ کہے، ہم سب کو اس کا خاص اہتمام کرنا چاہیے ، نہ یہ کہ اقامت کے وقت ادھر اُدھر کی باتوں میں مشغول ہوں ۔(اہم مسائل/ج:۶/ص:۵۲)