IK BAAR MADINA MAIN HO JAAYE MERA JANA

Naats

آیۃ القران

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَفْعَلُوْۤا اِلٰۤى اَوْلِیٰٓئِكُمْ مَّعْرُوْفًا كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا(۶)(سورۃ الاحزاب)

ایمان والوں کے لیے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں، اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ اس کے باوجود اللہ کی کتاب کے مطابق پیٹ کے رشتہ دارو دوسرے مومنوں اور مہاجرین کے مقابلے میں ایک دوسرے پر (میراث کے معاملے میں) زیادہ حق رکھتے ہیں الا یہ کہ تم اپنے دوستوں (کے حق میں کوئی وصیت کر کے ان) کے ساتھ کوئی نیکی کرلو۔ یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔(۶)(آسان ترجمۃ القران) یعنی : یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ اگرچہ حضور نبی کریم ﷺ تمام مسلمانوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں، اور آپ کی ازواج مطہرات کو سب مسلمان اپنی ماں سمجھتے ہیں، لیکن اس وجہ سے آنحضرت ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کو میراث کے معاملے میں کسی مسلمان کے اپنے رشتہ داروں پر فوقیت حاصل نہیں ہوئی، چنانچہ جب کسی کا انتقال ہوتا ہے تو اس کی میراث اس کے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم ہوتی ہے، آنحضرت ﷺ یا آپ کی ازواج مطہرات کو اس میں سے کوئی حصہ نہیں دیا جاتا، حالانکہ دینی اعتبار سے آپ اور آپ کی ازواج مطہرات دوسرے رشتہ داروں سے زیادہ حق رکھتی ہیں۔ جب آنحضرت ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کو ان کے دینی رشتے کے باوجود میراث میں شریک کیا گیا تو منہ بولے بیٹے کو محض زبان سے بیٹا کہہ دینے کی بنا پر میراث میں کیسے شریک کیا جاسکتا ہے ؟ البتہ اگر ان کے ساتھ نیکی کا ارادہ ہو تو ان کے لیے اپنے ترکے کے تہائی حصے کی حد تک کوئی وصیت کی جاسکتی ہے۔(آسان ترجمۃ القران)

حدیث الرسول ﷺ

سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلَاةِ وَإِذَا كَانَ الْبَرْدُ عَجَّلَ(نسائی شریف: ۵۰۰)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب گرمی ہوتی تو رسول اللہ ﷺ نماز ظہر کو ٹھنڈی کر کے پڑھتے تھے اور جب سردی ہوتی تو جلدی پڑھتے ۔

بزرگوں کی تواضع

جن بزرگوں کی باتیں سن اور پڑھ کر ہم لوگ دین سیکھتے ہیں۔ ان کے حالات پڑھنے سے معلوم ہو گا کہ وہ لوگ اپنے آپ کو اتنا بے حقیقت سمجھتے ہیں جس کی حد و حساب نہیں۔ چنانچہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ارشاد میں نے اپنے بے شمار بزرگوں سے سنا وہ فرماتے تھے کہ : میری حالت یہ ہے کہ میں ہر مسلمان کو اپنے آپ سے فی الحال .. اور ہر کافر کو احتمالا اپنے آپ سے افضل سمجھتا ہوں ” اور کافر کو اس وجہ سے کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو کبھی ایمان کی توفیق دیدے. اور یہ مجھ سے آگے بڑھ جائے“۔ ایک مرتبہ حضرت تھانوی قدس اللہ سرہ کے خلیفہ خاص حضرت مولانا خیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مفتی محمد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ حضرت تھانوی صاحب کی مجلس میں بیٹھتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ جتنے لوگ مجلس میں بیٹھے ہیں۔... سب مجھ سے افضل ہیں اور میں ہی سب سے زیادہ نکما اور ناکارہ ہوں ...... حضرت مفتی محمد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سن کر فرمایا کہ میری بھی یہی حالت ہوتی ہے.. دونوں نے مشورہ کیا کہ ہم حضرت تھانوی کے سامنے اپنی یہ حالت ذکر کرتے ہیں معلوم نہیں کہ یہ حالت اچھی ہے۔ یا بری ہے۔ چنانچہ یہ دونوں حضرات حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور اپنی حالت بیان کی کہ حضرت آپ کی مجلس میں ہم دونوں کی یہ حالت ہوتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ کچھ فکر کی بات نہیں۔ اس لئے کہ تم دونوں اپنی یہ حالت بیان کر رہے ہو۔ حالانکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب میں بھی مجلس میں بیٹھتا ہوں تو میری بھی یہی حالت ہوتی ہے کہ اس مجلس میں سب سے زیادہ نکما اور ناکارہ میں ہی ہوں۔ یہ سب مجھ سے افضل ہیں۔ یہ ہے تواضع کی حقیقت ارے جب تواضع کی یہ حقیقت غالب ہوتی ہے تو پھر انسان تو انسان ... آدمی اپنے آپ کو جانوروں سے بھی کمتر سمجھنے لگتا ہے۔ )

اہم مسئلہ

داڑھی تراشنے اور منڈوانے والے کے یہاں دعوت کھانا؟ حدیث میں آیا ہے کہ فاسق لوگوں کی دعوت قبول نہ کی جائے اور داڑھی منڈوانے اور ترشوانے والے لوگ بھی چوں کہ فاسق ہیں، اس لئے اگر مصلحت کے خلاف نہ ہو تو اُن لوگوں کی دعوت رد کی جاسکتی ہے، خاص کر جب کہ مجلس دعوت میں منکرات ہوں ، تو ممانعت کا حکم اور تاکیدی ہو جاتا ہے۔(کتاب النوزل/ج:۱۶/ص:۷۵)

//