*عیب دیکھنا بھی عیب ہے* ♾️♾️🍃🌸🍃♾️♾️ ملکِ فارس کا بہرام بادشاہ شکار کرنے میں مشہور تھا۔ ایک دن وہ شکار کے لیے نکلا تو جنگلی گدھا اسے نظر آیا ۔تو وہ اس کے پیچھے بھاگ نکلا حتی کہ وہ بادشاہ اپنے لشکر سے بچھڑ گیا ۔لیکن شکار پکڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ شکار کو ذبح کرنے کے لیے وہ اپنے گھوڑے سے اترا تو ایک چرواہے کو دیکھا کہ وہ جنگل سے آ رہا ہے۔ بادشاہ نے کہا: *یا راعی امسک فرسی ھذا حتی اذبح ھذا الحمار فمسکه ثم تشاغل بذبح الحمار* ”اے چرواہے تو میرا گھوڑا پکڑ میں اس گدھے کو ذبح کروں چنانچہ اُس نے گھوڑے کو پکڑا تو بادشاہ گدھے کو ذبح کرنے میں مصروف ہو گیا“ لیکن بہرام بادشاہ نے گھوڑے پر بھی نظر رکھی تو دیکھا کہ چرواہا: *یقطع جوھرۃ فی عذرا فرسه* ”اس گھوڑے کے گلے سے موتی کاٹ رہا ہے ۔“ تو بہرام نے اسکی چشم پوشی کرتے ہوئے توجہ کو دوسری طرف کر لیا حتی کہ چرواہے نے موتی کاٹ لیا ۔ بہرام بادشاہ نے کہا کہ: *ان النظر الی العیب من العیب ثم رکب فرسه ولحق بعسکره* عیب کی طرف دیکھنا بھی عیب ہے پھر وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے لشکر کے ساتھ جا کر مل گیا۔ بادشاہ سے اس کے وزیر نے پوچھا: *ایھا الملک این جوھرۃ عذرا فرسک فتبسم الملک ثم قال اخذھا من لا یردھا وابصر من لا ینم علیه* اے بہرام بادشاہ : آپ کے گھوڑے کے گلے کا موتی کہاں ہے ؟ بادشاہ نے مسکرا کر کہا: جس نے موتی لیا ہے وہ واپس نہیں کرے گا ۔اور جس نے اسے دیکھا ہے وہ بھی اس کا نام نہیں لے گا۔ اور تم میں سے جو شخص وہ موتی جس کسی کے پاس دیکھے وہ اُس سے جھگڑا نہ کرے۔ *(حکایاتِ قلیوبی*) عیبوں کو ڈھونڈتی ہے عیب جو کی نظر جو خوش نظر ہیں وہ کمال و ہنر دیکھتے ہیں

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

حکیم اور حکمت

حکیم اور حکمت

چند دن پہلے دانت میں شدید درد تھا فورا ڈاکڑ کے پاس گیا پہلے تو پتہ چلا کہ لسٹ مکمل ہو چکی ہے اور ڈاکٹر اس سے زیادہ مریضوں کو چیک نہیں کرتا بڑی منت سماجت کے بعد مشکل سے آخر میں نمبر مل گیا ، ڈاکٹر نے چیک کیا اور پہلے تو دانت میں چند انجکشن لگائے پھر ایک پلاس کی طرح کی کوئی چیز ہاتھ میں لی، مختلف قسم کے آلات اور چیزوں کی مدد سے مسوڑوں اور دانت کے ساتھ پوری جنگ کرتا رہا اور میں درد کی شدت کی وجہ سے کھبی کرسی کو زور سے پکڑتا تو کھبی اوپر نیچے ہوتا ،آنکھوں میں پانی بھی جمع ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیوں یہ سب تحمل کر رہا ہوں ؟ کیوں اعتراض نہیں کر رہا ؟ کیوں ڈاکٹر کو چند گالیاں تحفے کے طور پر نہیں دے رہا ؟ کیوں ڈاکٹر کو تھپڑ نھیں مار رہا ؟ بلکہ بعد میں اس کا شکریہ بھی ادا کر رہا تھا اور پوچھ رہا تھا کہ دوبارہ کب آوں اوپر سے اس سارے کام کے ڈاکٹر کو پیسے بھی دیئے کچھ دیر تو سوچتا رہا _______ پھر اچانک مجھے اپنے آپ سے شرم اور خدا سے شرمندگی محسوس ہونے لگی جب میرے اندر سے آواز آئی کہ خان صاحب کیا خدا کو اس ڈاکٹر کے برابر ہی مانتے ہو۔۔۔۔۔؟ ڈاکٹر کو اعتراض نہیں کرتے کیونکہ پتہ ہے کہ اس سارے درد انجکشن ، پلاس اور دوسرے آلات اس تکلیف کا ایک فلسفہ و حکمت ہے اور آخر میں ہمارا اپنا ہی فائدہ ہے پس خدا تو خالق و مالک حکمت ہے حتی پہلے تو ڈاکٹر کو حکیم ہی کہتے تھے اور خدا تو سب سے بڑا حکیم ہے پس یاد رکھیں اسکے کام بھی حکمت سے خالی نہیں ، اگر کوئی درد ،مشکل یا امتحان ہماری طرف آئے تو خدا کی حکمت پر اعتماد کریں اس کا شکریہ ادا کریں اور پوچھیں خدایا دوبارہ ہماری باری کب ہے 💐💐 مجھے بھی درد کی حکمت اس وقت پتہ چلی جب کسی نے بتایا کہ کینسر کے لاعلاج ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسکا درد نھی ہوتا اور جب پتہ چلتا ہے تو اس وقت کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے انسان ڈاکٹر کے فہم و درک ، سند اور اس کے تجربہ پر ایمان رکھتا ہے ڈاکٹر کا جتنا تجربہ زیادہ اتنا یقین زیادہ باقاعدہ کلینک کے باہر لکھا ہوتا ہے تجربہ 20 سالہ، 40 سالہ، 60 سالہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ خدا کا تجربہ تو اربوں سالوں سے ہے بلکہ یوں کہوں تو بہتر ہے کہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ہاں یاد آیا کہ علامہ اقبال کو بھی تو حکیم الامت کہتے ہیں کیونکہ اس نے امت کے دردوں کا صحیح علاج بتایا تھا لیکن ہم لوگوں کو تو وقتی طور پر ڈسپرین یا بروفن چاہیے جو تھوڑی دیر کیلئے اس درد کو دور کر دے چاہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پورے بدن کو ہی خراب کیوں نا کر دے ،