راستے پر اگر کنکر ہوں تو انسان انہیں نظر انداز کر کے یا اچھا جوتا پہن کر آسانی سے چل سکتا ہے۔ ان کنکروں سے ہمیں کچھ دیر کے لیے تکلیف ہو سکتی ہے، لیکن ہمارا سفر جاری رہتا ہے اور ہم اپنے منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ اگر ہم راستے کی مشکلات اور رکاوٹوں کو ذہانت اور ثابت قدمی سے عبور کریں، تو وہ ہمیں روک نہیں سکتیں۔ لیکن سوچیں کہ اگر ہمارے اپنے جوتے میں ایک چھوٹا سا کنکر آ جائے تو کیا ہوگا؟ اب اچھی سے اچھی سڑک بھی ہمارے لیے مشکل بن جاتی ہے۔ چلنا بظاہر آسان دکھائی دیتا ہے، لیکن ہر قدم ایک تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ گویا یہ چھوٹا سا کنکر ہماری ہر کوشش کو برباد کر دیتا ہے اور ہمیں رکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اسی طرح، زندگی میں اکثر ہم باہر کے مسائل کو بڑی آسانی سے حل کر لیتے ہیں، لیکن جب دل و دماغ میں کمزوریاں اور شک و شبہات بیٹھ جائیں، تو وہ ہمارے لیے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ یہ اندرونی کمزوریاں، چاہے وہ خوف ہوں، مایوسی ہو، یا خود پر اعتماد کی کمی، ہمیں آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ اس لیے، اصل کامیابی یہ ہے کہ ہم اپنے اندر کے کنکروں کو پہچانیں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ جب اندر سے مضبوط ہوں گے، تو باہر کے کنکر اور رکاوٹیں ہمیں کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹا سکیں گی۔ زندگی کی حقیقی جدوجہد یہی ہے کہ ہم اپنے اندرونی کمزوریوں پر قابو پا کر اپنی منزل کی جانب قدم بڑھائیں۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

رولے اب دل کھول کر :

رولے اب دل کھول کر :

آہ! کوئی نہیں سب گمراہ ہوگئے،سب نکمّے نکلے،سب غافل ہوگئے،سب پر نیند کی موت چھاگئی،سب نے ایک ہی طرح کی ہلاکت پی لی،سب ایک ہی طرح کی تباہیوں پر ٹوٹے،سب نے خدا کو چھوڑ دیا،سب نے اُس کے عشق سے منہ موڑ لیا،سب نے اُس کے رشتہ کو بٹّہ لگادیا،سب غیروں کے ہوگئے،سب نے غیروں کی چوکھٹوں کی گرد چاٹی اور سب نے ایک ساتھ مل کر گندگیوں اور ناپاکیوں سے پیار کیا؛ آہ!سب نے عہد باندھا کہ ہم ایک ہی وقت میں گمراہ ہوجائینگے اور سب نے قسم کھالی ہے کہ ہم ایک ہی وقت میں خدا کی پکار سے بھاگیں گے،آہ!سب اس سے بھاگ گئے،سب نے اس سے غول در غول بن کر بے وفائی کی؛؛کوئی نہیں جو اس کے لیے روئے،کوئی نہیں جو اس کے عشق میں آہ و نالہ کرے،اُس کی محبت کی بستیاں اُجڑ گئیں،اُس کے عشق و پیار کے گھرانے مٹ گئے،اس کے گلّہ کا کوئی رکھوالا نہ رہا،اور اُس کے کھیتوں کی حفاظت کے لیے کوئی آنکھ نہ جاگی!!سب شیطان کے پیچھے دوڑے،سب نے ابلیس کے ساتھ عاشقی کی اور سب نے بدکار عورتوں کی طرح اپنی آشنائی کے لیے اُسے پکارا!! پھر اس پر قیامت یہ ہے کہ کسی کو ندامت نہیں،کسی کا سر شرمندگی سے نہیں جھکتا،کسی کے گلے سے توبہ و انابت کی آواز نہیں نکلتی،کسی کی پیشانی میں سجدہ کیلئے بیقراری نہیں،کوئی نہیں جو روٹھے ہوئے کو منانے کیلئے دوڑجائے اور کوئی نہیں جو اپنی بدحالیوں اور ہلاکتوں پر پھوٹ پھوٹ کر آہ و زاری کرے؛؛ آہ!میں کیا کروں اور کہاں جاؤں اور کس طرح تمہارے دلوں کے اندر اُتر جاؤں اور یہ کس طرح ہو کہ تمہاری روحیں پلٹ جائیں اور تمہاری غفلت مرجائے؟یہ کیا ہوگیا ہے کہ تم پاگلوں سے بھی بدتر ہوگئے ہو اور شراب کے متوالے تم سے زیادہ عقلمند ہیں۔تم کیوں اپنے آپ کو ہلاک کررہے ہو اور کیوں تمہاری عقلوں پر ایسا طاعون چھاگیا ہے کہ سب کچھ کہتے ہو،سمجھتے ہو،پر نہ تو راستبازی کی راہ تمہارے آگے کھلتی ہے اور نہ گمراہیوں کے نقش قدم کو چھوڑتے ہو!! مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللّٰہ