روزہ کی عظمت اور اس کا اجر و ثواب علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں: تمام عبادات میں روزہ کو تقویٰ کی اصل اور بنیاد اس لیے بھی قرار دیا گیا ہے کہ یہ ایک مخفی خاموش عبادت ہے، جو ریا اور نمائش سے بری ہے۔ جب تک خود انسان اس کا اظہار نہ کرے، دوسروں پر اس کا راز افشا نہیں ہوسکتا اور یہی چیز تمام عبادات کی جڑ اور اخلاق کی بنیاد ہے۔ اسی اخلاص اور بے ریائی کا یہ اثر ہے کہ اللّٰه تعالیٰ نے اس کی نسبت فرمایا کہ روزہ دار میرے لیے اپنا کھانا پینا اور ملذذات کو چھوڑتا ہے۔ "الصوم لي وأنا أجزي به" روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا۔" جزا تو ہر کام کی وہی دیتا ہے، لیکن صرف اس کی عظمت اور بڑائی کو ظاہر کرنے کے لیے، اس کی جزا کو خود اپنی طرف منسوب فرمایا اور بعض علماء کے نزدیک، اس کا اشارہ قرآن پاک کی اس آیت میں ہے: اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ (الزمر: ۱۰) "صبر کرنے والوں کو مزدوری بے حساب پوری کی جائے گی۔" اور اتنا ظاہر ہے کہ روزہ کی مشقت اٹھانا بھی صبر کی ایک قسم ہے، اس لیے روزہ دار بھی صابرین کی جماعت میں داخل ہوکر، اجر بے حساب کے مستحق ہوں گے۔ سیرت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم/جلد: پنجم/صفحہ: ۱۷۹/۱۸۰/