*👈🏻انوکھی مسکراہٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🤓🤏🏻* ایک خاتون آٹو ورک شاپ گئی، اور 710 مانگا 😀 سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے كسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا، تو ایک مکینک نے پوچھا : یہ 710 کیا ہے 😬 خاتون نے کہا وہ انجن کے بیچ میں لگا ایک چھوٹا سا پرزہ ہوتا ہے، وہ کھو گیا ہے 😒 مکینک نے ایک سادہ کاغذ دیا کہ اس پر اس کی تصویر بنا دیجیے 😜 خاتون نے ایک دائرہ بناکر اس پر 710 لکھ دیا 😱 پھر بھی کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا🥶 مکینک اس خاتون کو ایک دوسری گاڑی پر لے گیا 😩 اور گاڑی کا انجن دکھا کر بولا 😉 اس میں وہ پارٹ ہو تو بتائیے 😹 خاتون نے کہا کہ سامنے ہی تو ہے 🙁 اس پارٹ کو دیکھ کر مکینک غش کھا کر گر پڑا، اور ابھی بھی حالت بے ہوشی میں ہے آئیے 🤧🥴 آپ بھی اس پارٹ کا دیدار کرلیں کہ آخر یہ 710 کس بلا کا نام ہے 👆🏻😀😂

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

چھوٹے بچوں سے جھوٹ بولنا

چھوٹے بچوں سے جھوٹ بولنا

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے۔ چناں چہ حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مکان میں تشریف فرما تھے، میری والدہ نے (میری جانب بند مٹھی بڑھا کر ) کہا: یہاں آؤ! میں تمہیں دوں گی ( جیسے مائیں بچے کو پاس بلانے کے لئے ایسا کرتی ہیں ) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے ارشاد فرمایا: ”تمہارا اسے کیا دینے کا ارادہ تھا؟“‘ والدہ نے جواب دیا کہ میں اسے کھجور دینا چاہتی تھی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: أَمَا إِنَّكِ لَوْ لَمْ تُعْطِهِ شَيْئًا كُتِبَتْ عَلَيْكِ كَذِبَةٌ. (الترغيب والترهيب (۳۷۰/۳) اگر تم اسے کوئی چیز نہ دیتیں تو تمہارے نامۂ اعمال میں ایک جھوٹ لکھا جاتا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بہت سی ایسی باتیں جنہیں معاشرہ میں جھوٹ نہیں سمجھا جاتا ہے، ان پر بھی جھوٹ کا گناہ ہو سکتا ہے۔ بچوں کو جھوٹی تسلیاں دینا اور جھوٹے وعدے کرنا عام طور پر ہر جگہ رائج ہے، اور اسے جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ حالاں کہ درج بالا ارشاد نبوی کے مطابق یہ بھی جھوٹ میں داخل ہے، جس سے بچنے کا اہتمام کرنا چاہئے ۔(رحمن کے خاص بندے/ ص:۳۳۶)