ماہر درزی کی حیرت انگیز قینچی.....! ایک شیریں زبان آدمی رات کو دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر درزیوں کے بارے میں مزے دار قصے سنا رہا تھا ، داستان گو اتنی معلومات رکھتا تھا کہ باقاعدہ اچھا خاصا درزی نامه مرتب ہو سکتا تھا ، جب اس آدمی نے درزیوں کی چوری اور مکاری سے گاہکوں کا کپڑا غائب کر دینے کے ان گنت قصے بیان کر ڈالے تو سننے والوں میں ایک ترک جسے اپنی دانش و ذہانت پر بڑا ناز تھا کہنے لگا : اس علاقے میں سب سے گرو درزی کونسا ہے ؟ داستان گونے کہا : یوں تو ایک سے ایک ماہر فن اس شہر کے گلی کوچوں میں موجود ہیں ، لیکن پورش نامی درزی بڑا فنکار ہے ، اس کے کاٹے کا منتر ہی نہیں ، ہاتھ کی صفائی میں ایسا استاد کہ کپڑا تو کپڑا آنکھوں کا کاجل تک چرالے اور چوری کا پتہ نہ لگنے دے ترک کہنے لگا : لگا لو مجھ سے شرط ! میں اس کے پاس کپڑا لے کر جاؤں گا، اور دیکھوں گا کہ وہ کیسے میری آنکھوں میں دھول جھونک کے کپڑا چراتا ہے ، میاں کپڑا تو درکنار ایک تار بھی غائب نہ کر سکے گا دوستوں نے جب یہ سنا تو کہنے لگے : ارے بھائی زیادہ جوش میں نہ آؤ ، تم سے پہلے بھی بہت سے یہی دعوی کرتے آئے اور اس درزی سے چوٹ کھا گئے، تم اپنی عقل و خرد پر نہ جاؤ، دھوکا کھاؤ گے محفل برخاست ہونے کے بعد ترک اپنے گھر چلا گیا ، اسی پیچ و تاب اور فکر و اضطراب میں ساری رات گزاری ، صبح ہوتے ہی قیمتی اطلس کا کپڑا لیا اور پورش درزی کا نام پوچھتا پوچھتا اس کی دکان پر پہنچ گیا ، درزی اس ترک گاہک کو دیکھتے ہی نہایت ادب سے کھڑا ہو کر تسلیمات بجالایا ، درزی نے خوش اخلاقی و تعظیم و تکریم کا ایسا مظاہرہ کیا کہ ترک بے حد متاثر ہوا ، دل میں کہنے لگا : یہ شخص تو بظاہر ایسا عیار اور دغا باز نظر نہیں آتا ، لوگ بھی خواہ مخواہ رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں ، یہ سوچ کر قیمتی اطلس درزی کے آگے دھر دی اور کہنے لگا : اس اطلس کی قبا مجھے سی دیں درزی نے دونوں ہاتھ ادب سے اپنے سینے پر باندھے اور کہنے لگا : حضور قبا ایسی سیوں گا جو نہ صرف آپ کے جسم پر زیب دے گی بلکہ دنیا دیکھے گی اس نے کپڑا گز سے ناپا پھر کاٹنے کے لئے جابجا اس پر نشان لگانے لگا، ساتھ ہی ساتھ ادھر ادھر کے پر لطف قصے چھیڑ دیے ، ہنسنے ہنسانے کی باتیں ہونے لگیں جن میں ترک کو بے حد دلچسپی ہو گئی ، جب درزی نے اسکی دلچسپی دیکھی تو ایک مزاحیہ لطیفہ سنایا جسے سن کر ترک ہنسنے لگا، ترک کی چندھی چندھی آنکھیں اور بھی مچ گئیں ، درزی نے جھٹ پٹ کپڑا کاٹا اور ران تلے ایسا دبایا کہ سوائے خدا کی ذات کے اور کوئی نہ دیکھ سکا غرض کی اس پر لطف داستان سرائی میں ترک اپنا اصل مقصد اور دعوی فراموش کر بیٹھا، کدھر کی اطلس کہاں کی شرط ؟ ہنسی مذاق میں ترک سب سے غافل ہو گیا ، ترک درزی سے کہنے لگا : ایسی ہی مزیدار کوئی اور بات سناؤ! درزی نے پھر چرب زبانی کا مظاہرہ کیا ، ترک اتنا ہنسا کہ اس کی آنکھیں بالکل بند ہو گئیں ، ہوش و حواس رخصت ، عقل و خرد الوداع ، اس مرتبہ درزی نے پھر کپڑا کاٹ کر ران تلے دبالیا ، ترک نے چوتھی بار مذاق کا تقاضا کیا تو درزی کو کچھ حیا آگئی اور کہنے لگا : مزید تقاضا نہ کیجیے ، اگر ہنسی کی اور بات کہوں گا تو آپ کی قبا تنگ ہو جائے گی یہ حکایت بیان کرنے کے بعد مولانا رومی رحمہ اللہ نصیحت فرماتے ہیں کہ جانتے ہو وہ ترکی کون تھا ؟ دغا باز درزی کون تھا ؟ اطلس کیا ہے ؟ اور ہسنی مذاق کیا ہے ؟ قیچی کیا ہے اور قبا کیا چیز ہے ؟ سنو! وہ غافل ترک تمہاری ذات ہے جسے اپنی عقل و خرد پر بڑا بھروسہ ہے وہ عیار دہوکہ باز درزی یہ دنیائے فانی ہے ہنسی مذاق نفسانی جذبات ہیں تیری عمر اطلس پر دن رات درزی کی قینچی کی مانند چل رہے ہیں دل لگی کا شوق تیری غفلت ہے ، اطلس کی قبا تجھے بھلائی اور نیکی کے لئے سلوانی تھی ، وہ فضول مذاق اور قہقہوں میں تباہ و برباد ہو گئی اے عزیز ! اپنے ہوش و حواس درست کر ، ظاہر کو چھوڑ ، باطن کی طرف توجہ کر ، تیری قیمتی عمر کی اطلس رات دن کی قینچی سے دنیا کا مکار درزی ٹکڑے ٹکڑے کر کے چرائے جا رہا ہے اور تو ہنسی مذاق میں مشغول ہے......! حکایات رومی