
ایران کے سپریم لیڈر کا جنگ کے بعد پہلا بیان: فتح کا دعویٰ اور امریکہ کو سخت انتباہ
بیان کی تفصیل: 86 سالہ آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن پر ایک ریکارڈ شدہ ویڈیو پیغام میں خطاب کیا، جو ان کی 19 جون کے بعد پہلی عوامی پیشی تھی۔ وہ اس بار کچھ تھکے ہوئے دکھائی دیے، ان کی آواز بھاری تھی اور وہ کبھی کبھار اپنے الفاظ میں لڑکھڑاتے نظر آئے۔ دس منٹ سے زائد کے اس خطاب میں انہوں نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف سخت لہجے میں انتباہات جاری کیے اور ایرانی قوم کی استقامت کی ستائش کی۔ انہوں نے اتوار کے روز امریکی حملوں، جن میں ایران کے تین جوہری تنصیبات (فورڈو، نتنز اور اصفہان) پر بنکر بسٹر بموں اور کروز میزائلوں کا استعمال کیا گیا، کو کم اہمیت دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کے اثرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر تباہ ہو گیا، سراسر مبالغہ آرائی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’امریکہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ انہوں نے کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کی۔‘‘ تاہم، اقوام متحدہ کے جوہری واچ ڈاگ، انٹرنیشنل ایٹمک انرجی ایجنسی (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے جمعرات کو فرانسیسی براڈکاسٹر RFI سے گفتگو میں کہا کہ اسرائیلی اور امریکی حملوں سے ایران کی جوہری تنصیبات کو ’’بہت، بہت، بہت زیادہ نقصان‘‘ پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ’’تباہ شدہ‘‘ کہنا زیادتی ہوگا، لیکن نقصان کی شدت غیر معمولی ہے۔ ایران کے وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بغائی نے بھی بدھ کو تسلیم کیا کہ ’’ہماری جوہری تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا ہے، یہ بات یقینی ہے۔‘‘ جنگ اور سیز فائر کا پس منظر: 13 جون کو اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات اور اعلیٰ فوجی کمانڈرز اور سائنسدانوں پر حملوں کے بعد جنگ شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد آیت اللہ خامنہ ای ایک خفیہ مقام پر منتقل ہو گئے تھے اور عوامی طور پر منظر عام سے غائب تھے۔ اتوار، 22 جون کو امریکہ نے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر حملہ کیا، جس کے بعد صدر ٹرمپ کی کوششوں سے منگل کو سیز فائر کا اعلان ہوا۔ خامنہ ای نے دعویٰ کیا کہ امریکہ صرف اس لیے جنگ میں شامل ہوا کیونکہ اسے خوف تھا کہ اگر اس نے مداخلت نہ کی تو ’’صہیونی رژیم مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’امریکہ نے صہیونی رژیم کو بچانے کی کوشش کی، لیکن اسے کچھ حاصل نہ ہوا۔‘‘ قطر میں امریکی اڈے پر حملہ: خامنہ ای نے پیر کے روز قطر میں واقع امریکی اڈے، العدید ایئر بیس، پر ایرانی حملے کو ایک ’’اہم کارنامہ‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران خطے میں امریکی اہم مراکز تک رسائی رکھتا ہے اور ضرورت پڑنے پر ان کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔ انہوں نے اسے ’’امریکہ کے منہ پر طمانچہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی مستقبل میں دہرائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا: ’’اسلامی جمہوریہ ایران فتح یاب ہوا اور اس نے انتقاماً امریکہ کے منہ پر زوردار طمانچہ مارا۔ اگر دشمن دوبارہ جارحیت کرے گا تو اسے بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔‘‘ اس حملے سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، کیونکہ ایران نے حملے سے چند گھنٹے قبل قطری حکام اور امریکی فوج کو پیشگی اطلاع دی تھی۔ صدر ٹرمپ نے اسے ایک ’’مثبت اشارہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اطلاع کی بدولت کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ایران میں حالات کی بحالی: سیز فائر کے بعد ایران میں زندگی آہستہ آہستہ معمول پر آرہی ہے۔ جمعرات کو ایران نے اپنی فضائی حدود کا مشرقی نصف حصہ ملکی اور بین الاقوامی پروازوں کے لیے دوبارہ کھول دیا۔ تہران کی سڑکوں پر دکانیں کھلنے لگیں اور ٹریفک دوبارہ بحال ہو گئی۔ وزارت سڑکوں اور شہری ترقی کے ترجمان ماجد اخوان نے کہا کہ ملک کے مشرقی حصے میں فضائی حدود کو پروازوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ جنگ کے نقصانات: ایرانی حکام کے مطابق، جنگ کے دوران ایران میں 606 افراد ہلاک اور 5,332 زخمی ہوئے۔ تاہم، واشنگٹن میں قائم انسانی حقوق کے گروپ ’’ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹس‘‘ نے بدھ کو اعداد و شمار جاری کیے جن کے مطابق اسرائیلی حملوں میں کم از کم 1,054 افراد ہلاک اور 4,476 زخمی ہوئے، جن میں 417 عام شہری اور 318 سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔ دوسری طرف، اسرائیل میں ایرانی حملوں سے 28 افراد ہلاک اور 1,000 سے زائد زخمی ہوئے۔ مستقبل کے مذاکرات اور جوہری پروگرام: صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکی اور ایرانی حکام اگلے ہفتے مذاکرات کریں گے، جو طویل مدتی امن کے لیے ایک امید کی کرن ہیں۔ تاہم، ایران نے ابھی تک ان مذاکرات کی تصدیق نہیں کی۔ امریکی مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکاف نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان براہ راست اور بالواسطہ رابطے ہوئے ہیں۔ ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو ترک کرنے سے واضح انکار کر دیا ہے۔ بدھ کو ایرانی پارلیمنٹ نے ایک تجویز کو تیزی سے آگے بڑھانے کی منظوری دی، جس سے ایران کا IAEA کے ساتھ تعاون مؤثر طور پر ختم ہو سکتا ہے، جو برسوں سے اس کے جوہری پروگرام کی نگرانی کر رہا ہے۔ نتیجہ: آیت اللہ خامنہ ای کا یہ بیان ایرانی قوم کے عزم اور استقامت کی عکاسی کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ سیز فائر کے باوجود خطے میں کشیدگی برقرار ہے، اور مستقبل کے مذاکرات کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا فریقین ایک دوسرے کے تحفظات کو دور کر سکتے ہیں۔ یہ بیان نہ صرف ایران کی پوزیشن کو واضح کرتا ہے بلکہ عالمی برادری کے لیے ایک پیغام بھی ہے کہ ایران اپنی خودمختاری اور وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ ماخذ: ای پی نیوز: دی ہندو: واشنگٹن پوسٹ: ایکس پوسٹس: