فورڈو سے غائب 400 کلو گرام یورینیم: ایران پر اسرائیل اور امریکہ کا دباؤ
تنازعہ کی تفصیل: ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ، جو 13 سے 24 جون 2025 تک جاری رہی، نے عالمی سیاست کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا۔ اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اسرائیلی چینل 13 کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کے حملوں کا مقصد ایران کی جوہری تنصیبات—فورڈو ، نتنز، اور اصفہان—کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا تھا، نہ کہ افزودہ یورینیم کو ختم کرنا۔ انہوں نے واضح کیا: ’’ہم شروع سے جانتے تھے کہ ہمارا حملہ جوہری تنصیبات کے اردگرد کے ڈھانچے کو تباہ کرے گا، مگر یہ یورینیم کو ختم نہیں کرے گا۔ اب ہم اور امریکہ مل کر ایران سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنا افزودہ یورینیم ہمارے حوالے کرے۔‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران کی جوہری صلاحیت کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے، اور ’’آج ایران کے پاس ایٹم بم بنانے کا کوئی طریقہ نہیں، کیونکہ ہم نے یورینیم کو ٹھوس شکل دینے والی ٹرانسفر سہولت کو بھی تباہ کر دیا ہے۔‘‘ تاہم، انہوں نے ایک چونکا دینے والا انکشاف بھی کیا کہ اسرائیل کو ایران کے تمام افزودہ یورینیم کے ذخائر کے ٹھکانوں کا علم نہیں ہے۔ غائب یورینیم کا معمہ: فائننشل ٹائمز نے دو خفیہ ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ یورپی ممالک کا خیال ہے کہ امریکی حملوں کے باوجود ایران کے پاس ہتھیاروں کے درجے تک افزودہ یورینیم کا تقریباً 408 کلو گرام ذخیرہ اب بھی موجود ہے، جو گزشتہ ہفتے فورڈو میں موجود نہیں تھا۔ امریکی B-2 بمبار طیاروں کے حملوں سے قبل فورڈو کے قریب ٹرکوں کی مشکوک نقل و حرکت دیکھی گئی تھی، جس سے خفیہ ایجنسیوں نے اندازہ لگایا کہ ایران نے اپنا یورینیم کسی خفیہ مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ سعودی چینل الحدث نے ایک نامعلوم اسرائیلی ذریعے کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ اسرائیل ’’بالکل درست‘‘ جانتا ہے کہ ایران نے اپنا افزودہ یورینیم کہاں چھپایا ہے۔ ذریعے نے کہا: ’’زیادہ تر افزودہ یورینیم ایران میں ملبے کے نیچے دبا ہوا ہے، مگر ہم جوہری تباہی سے بچنے کے لیے اس پر حملہ نہیں کریں گے۔‘‘ اس ذریعے نے مزید کہا کہ ایران کی جوہری صلاحیتیں، بنیادی ڈھانچہ، سہولیات، اور سینٹری فیوجز تباہ ہو چکے ہیں۔ امریکی صدر کا ردعمل: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان دعوؤں کی سختی سے تردید کی کہ ایران نے حملوں سے قبل اپنے 408 کلو گرام افزودہ یورینیم کو محفوظ مقام پر منتقل کر لیا تھا۔ انہوں نے کہا: ’’یہ محض قیاس آرائیاں ہیں۔ سیٹلائٹ تصاویر اور خفیہ اطلاعات کے تجزیوں سے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا کہ ایران نے اپنا یورینیم منتقل کیا۔‘‘ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے بھی کہا کہ انہیں ایسی کوئی خفیہ اطلاعات نہیں ملیں جن سے یہ ثابت ہو کہ ایران نے اپنا یورینیم منتقل کیا ہے۔ خامنہ ای پر حملے کا منصوبہ: اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے ایک اور حیران کن انکشاف کیا کہ جنگ کے دوران اسرائیل نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی، مگر وہ موقع ہاتھ نہ آیا۔ انہوں نے کہا: ’’ہم نے خامنہ ای کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا، مگر وہ ایک گہرے بنکر میں چھپ گئے اور اپنے کمانڈرز سے رابطہ منقطع کر لیا۔ ہم انہیں تلاش نہ کر سکے۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس کارروائی کے لیے امریکہ سے اجازت مانگی گئی تھی، تو کاٹز نے دوٹوک الفاظ میں کہا: ’’ایسے معاملات میں ہمیں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل ایران کو نہ تو ایٹم بم بنانے دے گا اور نہ ہی طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تیار کرنے کی اجازت دے گا۔ عالمی ردعمل اور تناؤ: یہ تنازعہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ ایرانی پارلیمنٹ نے حال ہی میں ایک تجویز کی منظوری دی جس سے ایران کا انٹرنیشنل ایٹمک انرجی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ تعاون ختم ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب، یورپی ممالک کا خیال ہے کہ ایران کا افزودہ یورینیم کا ذخیرہ اب بھی کافی حد تک محفوظ ہے، جو عالمی امن کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ نتیجہ: فورڈو سے غائب 400 کلو گرام افزودہ یورینیم کا معمہ عالمی سیاست میں ایک نئے طوفان کا پیش خیمہ بن رہا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کا ایران پر دباؤ، خامنہ ای کو نشانہ بنانے کی ناکام کوشش، اور یورینیم کے ذخائر کی تلاش نے اس تنازعہ کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک امتحان ہے، جہاں ایک طرف جوہری ہتھیاروں کا خطرہ ہے اور دوسری طرف امن کی امید۔ کیا ایران اپنا یورینیم حوالے کرے گا، یا یہ تنازعہ ایک نئی جنگ کا باعث بنے گا؟ یہ سوال وقت کے ہاتھوں میں ہے۔ ماخذ: فائننشل ٹائمز: اسرائیل چینل 13 الحدث چینل ایکس پوسٹس: