https://islamictube.in/new_site/public/images/news_images/9062_2025-06-28_islamictube.jpg

پنجاب جیلوں میں کرپشن اور منشیات کے خلاف سخت کارروائی: 25 افسران معطل

پس منظر اور کارروائی کی وجوہات: پنجاب کی جیلوں میں کرپشن اور منشیات کی سمگلنگ کے بارے میں اطلاعات برسوں سے گردش میں تھیں۔ جیلوں کے اندر سے منظم جرائم، خصوصاً منشیات کی سمگلنگ، کی سرگرمیوں نے نہ صرف جیل انتظامیہ کی ساکھ کو داغدار کیا بلکہ معاشرے پر بھی منفی اثرات مرتب کیے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے، وزیراعلیٰ بھگونت مان کی قیادت میں عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کی حکومت نے 28 جون 2025 کو ایک بڑی کارروائی کی، جس میں 25 جیل افسران کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا۔ معطل ہونے والوں میں تین ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس، دو اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹس، اور دیگر جیل عملہ شامل ہیں۔ حکومتی ترجمان نے اس کارروائی کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے کہا: ’’یہ معطلی جیلوں کے نظام میں اصلاحات لانے، شفافیت کو فروغ دینے، اور منشیات کے نیٹ ورکس کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ ہمارا مقصد جیلوں کے کام کاج کو بہتر بنانا اور ایک جوابدہ نظام قائم کرنا ہے۔‘‘ کارروائی کی تفصیلات: یہ کارروائی پنجاب حکومت کے ’’نشئیوں کے خلاف جنگ‘‘ (یودھ نشئیوں وِرودھ) پروگرام کا حصہ ہے، جو منشیات کے عذاب سے پنجاب کو نجات دلانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق، جیلوں کے اندر سے منشیات کی سمگلنگ اور کرپشن کے متعدد واقعات سامنے آئے، جن میں جیل عملے کی ملی بھگت کے شواہد ملے۔ اس سلسلے میں، پنجاب کی 25 جیلوں، جن میں 13 ہائی سیکیورٹی جیلز شامل ہیں، کی سخت نگرانی کی گئی۔ حکومت نے اس سے قبل بھی مارچ 2025 میں ایک پانچ رکنی وزارتی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کی سربراہی فنانس اینڈ ٹیکسیشن منسٹر ہرپال سنگھ چیمہ کر رہے ہیں۔ اس کمیٹی کا مقصد منشیات کے خلاف جاری مہم کی نگرانی اور بحالی کے پروگراموں کو مضبوط کرنا ہے۔ اس کے علاوہ، مارچ میں بدنام زمانہ گینگسٹر جگّو بھگوانپوریہ کو باتھنڈا سینٹرل جیل سے آسام کے سلچر جیل منتقل کیا گیا تھا، کیونکہ اس پر الزام تھا کہ وہ جیل سے ہی منشیات کے نیٹ ورک کو چلا رہا تھا۔ کرپشن اور منشیات کا نیٹ ورک: پنجاب کی جیلوں میں منشیات کی سمگلنگ ایک پرانا اور گھمبیر مسئلہ ہے۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ جیلوں کے اندر سے گینگ لیڈرز اور منشیات کے سمگلرز موبائل فونز اور جیل عملے کی مدد سے اپنے غیر قانونی دھندوں کو جاری رکھتے ہیں۔ ’’کچھوڑا‘‘ فونز، جو دو سے تین انچ کے چھوٹے آلات ہیں، جیلوں میں منشیات اور دیگر ممنوعہ اشیا کی سمگلنگ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ فونز اکثر قیدیوں کے جسم کے خفیہ حصوں میں چھپائے جاتے ہیں، جس سے ان کا پتہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ مزید برآں، ڈرونز کے ذریعے منشیات کی ترسیل اور جیل کے باہر سے آنے والے تعمیراتی ورکرز یا مینٹیننس عملے کی مدد سے منشیات کی سمگلنگ کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ 2022 میں کی گئی ایک سرکاری سروے کے مطابق، پنجاب کی جیلوں میں 47 فیصد قیدی منشیات کے عادی ہیں، جو اس مسئلے کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ سیاسی اور عوامی ردعمل: اس کارروائی پر سیاسی حلقوں سے ملے جلے ردعمل سامنے آئے ہیں۔ اپوزیشن لیڈرز نے اس اقدام کی حمایت کی لیکن ساتھ ہی یہ تنقید بھی کی کہ یہ کارروائی بہت دیر سے کی گئی۔ ایک سینئر کانگریس لیڈر نے کہا: ’’پنجاب کی جیلوں میں منشیات کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ حکومت کو اس پر پہلے سے عمل کرنا چاہیے تھا۔‘‘ عوام نے سوشل میڈیا پر اس کارروائی کی ستائش کی لیکن کچھ نے سوال اٹھایا کہ کیا صرف معطلی کافی ہے یا اس سے بڑے نظاماتی مسائل حل ہوں گے؟ ایکس پر ایک صارف نے لکھا: ’’مان حکومت کا یہ اقدام قابل تحسین ہے، لیکن جب تک پولیس اور سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ کو ختم نہیں کیا جاتا، یہ مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہوگا۔‘‘ دیگر اقدامات اور مستقبل کے امکانات: یہ معطلی پنجاب حکومت کی کرپشن اور منشیات کے خلاف وسیع تر مہم کا حصہ ہے۔ رواں سال کے شروع میں، 52 پولیس اہلکاروں کو کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات میں برطرف کیا گیا تھا، جن میں ایک انسپکٹر، پانچ اسسٹنٹ سب انسپکٹرز، اور 42 کانسٹیبلز شامل تھے۔ اس کے علاوہ، 10 ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس اور آٹھ سپرنٹنڈنٹس آف پولیس کو بھی معطل کیا گیا تھا۔ حکومت نے جیلوں کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے 525 کروڑ روپے سے زائد کی رقم مختص کی ہے، جس سے جیلوں کی سیکیورٹی، نگرانی کے نظام، اور بحالی کے پروگراموں کو مضبوط کیا جائے گا۔ پنجاب پولیس نے بھی ای-ایف آئی آر سہولت متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے، جو موٹر گاڑیوں کی چوری کے مقدمات کے لیے آن لائن ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت دے گی۔ نتیجہ: پنجاب حکومت کی اس کارروائی نے جیلوں میں کرپشن اور منشیات کے نیٹ ورک کے خلاف ایک مضبوط پیغام دیا ہے۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا مکمل خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب پولیس، سیاستدانوں، اور منشیات کے سمگلرز کے گٹھ جوڑ کو مکمل طور پر توڑا جائے۔ جیسا کہ فلم ’’اڑتا پنجاب‘‘ کے ایک گیت میں کہا گیا: ’’پاؤڈر کی لینو کا رکھیگا کون حساب؟‘‘ یہ کارروائی اس سوال کا ایک جزوی جواب ہو سکتی ہے، لیکن اصل کامیابی تب ہوگی جب پنجاب کی جیلوں سے منشیات اور کرپشن کا مکمل خاتمہ ہو جائے۔ یہ اقدام نہ صرف جیلوں کے نظام کو شفاف بنائے گا بلکہ پنجاب کے نوجوانوں کو منشیات کے عذاب سے نجات دلانے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ ماخذ: دی ٹریبیون: دی 420 ڈاٹ ان: پرو کیرالہ: سوشل نیوز ایکس وائی زیڈ: انڈیا ٹوڈے: دی انڈین ایکسپریس: ایکس پوسٹس: