
خیبر پختونخوا میں دل دہلانے والا خودکش حملہ: 13 فوجی شہید، ٹی ٹی پی نے ذمہ داری قبول کی
واقعے کی تفصیل: 28 جون 2025 کی صبح 7:40 بجے، شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں واقع خادی مارکیٹ ایک خوفناک دھماکے سے لرز اٹھی۔ عینی شاہدین کے مطابق، ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے لدی گاڑی کو پاکستانی فوج کے بم ناکارہ بنانے والے دستے کی گاڑی سے ٹکرا دیا۔ یہ گاڑی اس وقت اپنی ڈیوٹی پر مامور تھی جب حملہ آور نے اسے نشانہ بنایا۔ اس دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ قریبی مکانات کی چھتیں گر گئیں، اور آس پاس کے علاقوں کو شدید نقصان پہنچا۔ حملے میں 13 فوجی شہید ہوئے، جبکہ 10 دیگر فوجی اہلکار بھی جان کی بازی ہار گئے۔ 19 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جن میں 12 سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں۔ زخمیوں میں سے کئی کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے، اور انہیں فوری طور پر قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا۔ مقامی پولیس افسر نے بتایا کہ دھماکے سے دو مکانات کی چھتیں گرنے سے چھ بچوں سمیت کئی شہری زخمی ہوئے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عُسُود الحرب گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا: ’’یہ حملہ پاکستانی فوج کے خلاف ہمارا جواب ہے، جو ہمارے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔‘‘ علاقے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی: یہ حملہ خیبر پختونخوا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی تازہ کڑی ہے۔ حالیہ مہینوں میں صوبے میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں خطرناک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ واچ ڈاگ رپورٹس کے مطابق، 2024 میں دہشت گردی سے متعلقہ اموات میں 45 فیصد اضافہ ہوا، جو کہ پاکستان کے سیکیورٹی حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق، پاکستانی فوج نے رواں سال ٹی ٹی پی سے منسلک 10 مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ شمالی وزیرستان، جو کبھی ٹی ٹی پی کا گڑھ مانا جاتا تھا، حالیہ برسوں میں فوجی آپریشنز کی بدولت نسبتاً پرامن ہو گیا تھا۔ تاہم، یہ حملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دہشت گرد گروپ ایک بار پھر سرگرم ہو رہے ہیں۔ ایک مقامی صحافی نے ایکس پر لکھا: ’’شمالی وزیرستان میں یہ حملہ ایک واضح پیغام ہے کہ ٹی ٹی پی اپنی طاقت دوبارہ جمع کر رہی ہے۔ پاکستانی فوج کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔‘‘ ملک کے اندرونی حالات: پاکستان اس وقت کئی محاذوں پر مشکلات سے دوچار ہے۔ ایک طرف بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) بلوچستان میں فوج اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنا رہی ہے، تو دوسری طرف ٹی ٹی پی خیبر پختونخوا اور دیگر علاقوں میں اپنی دہشت پھیلا رہی ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں 2025 میں دہشت گردی کے واقعات میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو کہ پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ مقامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ افغانستان میں طالبان کی واپسی ہے، جس نے پاکستانی طالبان کو نئی ہمت دی ہے۔ ایک سینئر سیکیورٹی تجزیہ کار نے کہا: ’’ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو سرحد پار سے تربیت، ہتھیار، اور مالی امداد مل رہی ہے۔ جب تک سرحدی سیکیورٹی کو مضبوط نہیں کیا جاتا، یہ حملے جاری رہیں گے۔‘‘ سرکاری اور فوجی ردعمل: پاکستانی فوج نے حملے کے فوراً بعد علاقے کو سیل کر دیا اور سرچ آپریشن شروع کر دیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، فوج نے ممکنہ دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مار کارروائیاں شروع کی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا: ’’ہمارے فوجیوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ دہشت گردوں کے خلاف ہماری جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔‘‘ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے شہدا کے اہل خانہ کے لیے 10 لاکھ روپے فی کس معاوضے کا اعلان کیا اور زخمیوں کے مفت علاج کے احکامات جاری کیے۔ انہوں نے کہا: ’’یہ حملہ ہمارے حوصلوں کو کمزور نہیں کر سکتا۔ ہم اپنے شہدا کے خون کا ایک ایک قطرہ کا حساب لیں گے۔‘‘ عوامی اور سیاسی ردعمل: اس حملے نے پاکستان بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ سوشل میڈیا پر عوام نے فوجیوں کی شہادت پر خراج تحسین پیش کیا اور دہشت گردی کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ایک ایکس صارف نے لکھا: ’’ہمارے فوجی ہماری حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ اب وقت ہے کہ حکومت سرحدوں پر سیکیورٹی کو مزید مضبوط کرے۔‘‘ تاہم، کچھ حلقوں نے سرکاری پالیسیوں پر تنقید بھی کی، یہ کہتے ہوئے کہ فوج کے آپریشنز کے باوجود دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا: ’’حکومت کو اپنی انٹیلی جنس ناکامیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ یہ حملے ہماری سیکیورٹی کی کمزوریوں کو عیاں کرتے ہیں۔‘‘ نتیجہ: شمالی وزیرستان کا یہ خودکش حملہ پاکستان کے سیکیورٹی چیلنجز کی ایک تلخ یاد دہانی ہے۔ ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں میں اضافہ، سرحد پار سے ملنے والی امداد، اور اندرونی سیاسی عدم استحکام نے حالات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ پاکستانی فوج اور حکومت کے لیے یہ ایک امتحان ہے کہ وہ نہ صرف دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کریں بلکہ سرحدی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس نظام کو بھی مضبوط کریں۔ جیسا کہ ایک شہید فوجی کے والد نے کہا: ’’میرا بیٹا وطن کے لیے قربان ہوا، لیکن اس کی شہادت تب تک مکمل نہیں ہوگی جب تک اس ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ نہ ہو جائے۔‘‘ یہ واقعہ نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے، جہاں امن کی بحالی کے لیے ایک نئی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ماخذ: alarabiya ڈان نیوز: https://www.dawn.com جیو نیوز: https://www.geo.tv دی ایکسپریس ٹریبیون: https://tribune.com.pk بی بی سی اردو: https://www.bbc.com/urdu ایکس پوسٹس: https://x.com/ISPR_Official, https://x.com/GeoNewsUrdu