
آدھار کی شفافیت پر سوالیہ نشان: اموات کے بعد بھی نمبر فعال
آر ٹی آئی کی تفصیلات: ایک حالیہ آر ٹی آئی سے پتہ چلا کہ یو آئی ڈی اے آئی نے گزشتہ 14 برسوں (2011 سے 2024) میں صرف 1.15 کروڑ آدھار نمبر منسوخ کیے ہیں، جبکہ اسی عرصے میں ہندوستان میں تقریباً 11.69 کروڑ اموات ہوئیں۔ یہ اعداد و شمار سٹیزن رجسٹریشن سسٹم (CRS) کے مطابق ہیں، جو بتاتا ہے کہ 2007 سے 2019 تک ہر سال اوسطاً 83.5 لاکھ اموات رپورٹ ہوئیں۔ اس حساب سے، 14 برسوں میں صرف 10 فیصد سے بھی کم آدھار نمبر منسوخ کیے گئے، جو کہ ایک گہری تشویش کا باعث ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق، اپریل 2025 تک ہندوستان کی کل آبادی 146.39 کروڑ ہے، جبکہ آدھار کارڈ ہولڈرز کی تعداد 142.39 کروڑ ہے۔ اس کے مقابلے میں، منسوخ کیے گئے آدھار نمبروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، جو ڈیٹا کی درستگی اور اپ ڈیٹیشن کے عمل پر سوال اٹھاتی ہے۔ یو آئی ڈی اے آئی کا جواب: آر ٹی آئی میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں یو آئی ڈی اے آئی نے کہا کہ اس کے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں کہ ملک میں کتنے افراد کے پاس آدھار کارڈ نہیں ہے۔ یو آئی ڈی اے آئی نے بتایا کہ جب رجسٹرار جنرل آف انڈیا (RGI) کسی مرنے والے شخص کا ڈیٹا آدھار نمبر کے ساتھ شیئر کرتا ہے، تو ایک مخصوص عمل کے بعد آدھار نمبر منسوخ کیا جاتا ہے۔ اگست 2023 کے ایک سرکلر کے مطابق، یہ عمل دو شرائط پر مبنی ہے: نام کی 90 فیصد تک مماثلت ہونی چاہیے۔ جنس (Gender) کا 100 فیصد ملاپ ہونا چاہیے۔ اگر یہ دونوں شرائط پوری ہوتی ہیں، تو بھی آدھار نمبر اس وقت تک منسوخ نہیں کیا جاتا جب تک یہ تصدیق نہ ہو جائے کہ موت کے بعد اس نمبر سے کوئی بائیو میٹرک تصدیق یا اپ ڈیٹ نہیں ہوا۔ اگر موت کے بعد بھی آدھار کا استعمال ہوتا ہے، تو مزید تفتیش کی جاتی ہے۔ یو آئی ڈی اے آئی نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر منسوخ شدہ آدھار مستقبل میں کسی عمل کے لیے استعمال ہوتا ہے، تو سسٹم صارف کو خبردار کرتا ہے، اور متعلقہ شخص بائیو میٹرک تصدیق کے ذریعے اسے دوبارہ فعال کر سکتا ہے۔ سالانہ ریکارڈ کی کمی: جب آر ٹی آئی میں گزشتہ پانچ برسوں میں سالانہ بنیاد پر منسوخ کیے گئے آدھار نمبروں کی تفصیل مانگی گئی، تو یو آئی ڈی اے آئی نے صاف کہا کہ اس کے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں ہیں۔ ادارے نے صرف مجموعی اعداد و شمار دیے کہ 31 دسمبر 2024 تک موت کی بنیاد پر 1.15 کروڑ آدھار نمبر منسوخ کیے گئے ہیں۔ یہ کمی نظام کی شفافیت اور ڈیٹا مینجمنٹ کی خامیوں کو ظاہر کرتی ہے۔ بہار میں 100 فیصد سے زائد آدھار سیچوریشن: بہار میں خصوصی سمری ریویژن (SSR) کے دوران کئی اضلاع میں آدھار سیچوریشن 100 فیصد سے زیادہ دیکھا گیا، جو ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ مثال کے طور پر: کشن گنج: 126 فیصد کٹیہار اور ارریہ: 123 فیصد پورنیہ: 121 فیصد شیخ پورہ: 118 فیصد اس کا مطلب ہے کہ ان اضلاع کی تخمینی آبادی سے زیادہ افراد کو آدھار جاری کیے گئے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مرنے والوں کے آدھار نمبر بروقت منسوخ نہیں کیے جاتے۔ اس کے علاوہ، آبادی کے تخمینے میں غلطیاں، ہجرت، اور ڈپلی کیشن بھی اس کی وجوہات ہیں۔ ایک ایکس پوسٹ میں کہا گیا: ’’بہار میں 100 فیصد سے زائد آدھار سیچوریشن ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یو آئی ڈی اے آئی کو اپنے ڈیٹا بیس کو اپ ڈیٹ کرنے کی فوری ضرورت ہے۔‘‘ سماجی اور پالیسی مضمرات: یہ آر ٹی آئی انکشاف ہندوستان کے آدھار سسٹم کی بنیادی خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ یو آئی ڈی اے آئی کے پاس نہ تو آدھار کے بغیر افراد کا کوئی تخمینہ ہے اور نہ ہی اموات کے بعد آدھار نمبروں کو منسوخ کرنے کا کوئی موثر نظام۔ اس سے نہ صرف ڈیٹا کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ پالیسی سازی اور آبادی کے اعداد و شمار میں بھی سنگین خامیاں سامنے آتی ہیں۔ آدھار اب بینکنگ، راشن، ووٹنگ، اور سرکاری اسکیموں سے جڑ چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں ڈیٹا کی درستگی اور شفافیت نہایت ضروری ہے۔ ایک ماہر نے کہا: ’’آدھار سسٹم ہندوستان کی ڈیجیٹل شناخت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، لیکن اس کی خامیوں کو نظر انداز کرنا قومی مفاد کے خلاف ہے۔‘‘ نتیجہ: یہ آر ٹی آئی انکشاف ایک ایسی حقیقت کو سامنے لاتا ہے جو ہندوستان کے ڈیجیٹل شناخت کے نظام پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ 11.7 کروڑ اموات کے مقابلے میں صرف 1.15 کروڑ آدھار نمبروں کی منسوخی نہ صرف تکنیکی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ نظام کی شفافیت اور کارکردگی پر بھی سوال اٹھاتی ہے۔ جیسا کہ ایک ایکس صارف نے لکھا: ’’آدھار ہماری شناخت کا سب سے بڑا دستاویز ہے، لیکن اس کا ڈیٹا اگر اپ ڈیٹ نہیں، تو یہ ایک بے معنی کاغذ سے زیادہ کچھ نہیں۔‘‘ یو آئی ڈی اے آئی کو چاہیے کہ وہ اپنے نظام میں شفافیت لائے اور ایک موثر میکانزم تیار کرے تاکہ آدھار ڈیٹا کی ساکھ کو برقرار رکھا جا سکے۔ یہ نہ صرف تکنیکی ضرورت ہے بلکہ ایک قومی ذمہ داری بھی ہے۔ ماخذ: دی ہندو: انڈین ایکسپریس: ٹائمز آف انڈیا: ایکس پوسٹس: