حضرت عثمانؓ غنی کے سو قصّے

حدیث الرسول ﷺ

سَمِعْتُ عَلِيًّا، يَقُولُ: مَا جَمَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ لِأَحَدٍ، غَيْرِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، فَإِنَّهُ جَعَلَ يَقُولُ لَهُ يَوْمَ أُحُدٍ: ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي(مسلم شریف:۶۲۳۳)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کے لئے اپنے والدین کو جمع نہیں کیا سوائے سعد بن مالک کے ۔ ( سعد بن ابی وقاص کے ۔ مالک ان کے والد کا نام تھا جب کہ ابو وقاص کنیت تھی)۔ آپ ان سے غزوہ احد کے روز فرمارہے تھے: تیر اندازی کرو! تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں !(تفہیم المسلم)

آیۃ القران

وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا(۴۷)وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ دَعْ اَذٰىهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا(۴۸)(سورۃ الاحزاب)

تم مومنوں کو خوشخبری سنا دو کہ ان پر اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہونے والا ہے۔(۴۷) اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو اور ان کی طرف سے جو تکلیف پہنچے اس کی پرواہ نہ کرو، اور اللہ پر بھروسہ رکھو اور اللہ رکھوالا بننے کے لیے کافی ہے۔(۴۸)(آسان ترجمۃ القران)

نبوت سے پہلے کی اجمالی سیرت

نبی ﷺ کا وجود ان تمام خوبیوں اور کمالات کا جامع تھا جومتفرق طور پر لوگوں کے مختلف طبقات میں پاۓ جاتے ہیں۔ آپ ﷺ اصابت فکر ، دور بینی اور حق پسندی کا بلند مینار تھے۔ آپ ﷺ کوحسن فراست ، پختگی فکر اور وسیلہ ومقصد کی درستگی سے حظ وافر عطا ہوا تھا۔ آپ ﷺ اپنی طویل خاموشی سے مسلسل غور وخوض، دائمی تفکیر اور حق کی کرید میں مدد لیتے تھے۔ آپ ﷺ نے اپنی شاداب عقل اور روشن فطرت سے زندگی کے صحیفے ، لوگوں کے معاملات اور جماعتوں کے احوال کا مطالعہ کیا۔ اور جن خرافات میں یہ سب لت پت تھیں ۔ ان سے سخت بیزاری محسوس کی۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ان سب سے دامن کش رہتے ہوۓ پوری بصیرت کے ساتھ لوگوں کے درمیان زندگی کا سفر طے کیا۔ یعنی لوگوں کا جو کام اچھا ہوتا اس میں شرکت فرماتے ۔ ورنہ اپنی مقررہ تنہائی کی طرف پلٹ جاتے ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے شراب کو کبھی منہ نہ لگایا۔ آستانوں کا ذبیحہ نہ کھایا۔ اور بتوں کے لئے منائے جانے والے تہوار اور میلوں ٹھیلوں میں کبھی شرکت نہ کی ۔ آپ ﷺ کو شروع ہی سے ان باطل معبودوں سے اتنی نفرت تھی کہ ان سے بڑھ کر آپ کی نظر میں کوئی چیز مبغوض نہ تھی حتی کہ لات وعز کی قسم سننا بھی آپ کو گوارا نہ تھا۔ اس میں شبہ نہیں کہ تقدیر نے آپ ﷺ پر حفاظت کا سایہ ڈال رکھا تھا۔ چنانچہ جب بعض دنیاوی تمتعات کے حصول کے لئے نفس کے جذبات متحرک ہوۓ یا بعض نا پسندیدہ رسم ورواج کی پیروی پر طبیعت آمادہ ہوئی تو عنایت ربانی دخیل ہو کر رکاوٹ بن گئی۔ ابن اثیر کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اہل جاہلیت جو کام کرتے تھے مجھے دو دفعہ کے علاوہ کبھی ان کا خیال نہیں گذرا۔ لیکن ان دونوں میں سے بھی ہر دفعہ اللہ تعالی نے میرے اور اس کے درمیان رکاوٹ ڈال دی۔ اس کے بعد پھر کبھی مجھے اس کا خیال نہیں گذرا یہاں تک کہ اللہ نے مجھے اپنی پیغمبری سے مشرف فرمادیا۔ ہوا یہ کہ جو لڑکا بالائی مکہ میں میرے ساتھ بکریاں چرایا کرتا تھا اس سے ایک رات میں نے کہا کیوں نہ تم میری بکریاں دیکھو اور میں مکہ جا کر دوسرے جوانوں کی طرح وہاں کی شبانہ قصہ گوئی کی محفل میں شرکت کرلوں ۔ اس نے کہا ٹھیک ہے ۔اس کے بعد میں نکلا اور ابھی مکہ کے پہلے ہی گھر کے پاس پہنچا تھا کہ باجے کی آواز سنائی پڑی۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا ہے ، لوگوں نے بتلایا کہ فلاں کی فلاں سے شادی ہے ۔ میں سننے بیٹھ گیا۔ اور اللہ نے میرا کان بند کر دیا اور میں سو گیا ۔ پھر سورج کی تمازت ہی سے میری آنکھ کھلی ۔ اور میں اپنے ساتھی کے پاس واپس چلا گیا۔ اس کے پوچھنے پر میں نے تفصیلات بتائیں ۔ اس کے بعد ایک رات پھر میں نے یہی بات کہی اور مکہ پہنچا تو پھراسی رات کی طرح کا واقعہ پیش آیا۔ اور اس کے بعد پھر کبھی غلط ارادہ نہ ہوا ۔ صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ جب کعبہ تعمیر کیا گیا تو نبی ﷺ اور حضرت عباس پتھر ڈھور ہے تھے۔ حضرت عباس نے نبی ﷺ سے کہا۔ اپنے تہبند اپنے کندھے پر رکھلو پھر سے حفاظت رہے گی۔ لیکن آپ زمین پر جا گرے۔ نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں ۔افاقہ ہوتے ہی آواز لگائی میراتہبند۔ میراتہبند اور آپ کا تہبند آپ کو باندھ دیا گیا۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اس کے بعد آپ کی شرمگاہ کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ نبی ﷺ اپنی قوم میں شیریں کردار ، فاضلانہ اخلاق اور کریمانہ عادات کے لحاظ سے تو ممتاز تھے۔ چنانچہ آپ سب سے زیادہ با مروت ، سب سے خوش اخلاق ، سب سے معزز ہمسایہ سب سے بڑھ کر دوراندیش ، سب سے زیادہ راست گو سب سے نرم پہلو سب سے زیادہ پاک نفس، خیر میں سب سے زیادہ کریم ،سب سے نیک عمل سب سے بڑھ کر پابند عہد اور سب سے بڑے امانت دار تھے۔ حتی کہ آپ کی قوم نے آپ ﷺ کا نام ہی’’امین‘ رکھ دیا تھا۔ کیونکہ آپ احوال صالحہ اور خصال حمیدہ کا پیکر تھے ۔ اور جیسا کہ حضرت خدیجہ ﷺﷺ کی شہادت ہے ۔ آپ ﷺ درماندوں کا بوجھ اٹھاتے تھے ۔ تہی دستوں کا بندوبست فرماتے تھے۔ مہمان کی میزبانی کرتے تھے۔ اور مصائب حق میں اعانت فرماتے تھے۔

Naats

اہم مسئلہ

ستر کھلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا بہت سے حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ستر کھل جائے یا کسی کے ستر پر نظر پڑ جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے، یہ خیال غلط ہے، کیوں کہ ستر کھلنا یا کسی کے ستر پر نظر پڑنا ناقض وضو نہیں ہے۔ (اہم مسائل/ج:۲/ص:۵۴)

//