Michael jackson-give thanks to Allah

Naats

آیۃ القران

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۴۱)(سورۃ التوبہ)

(جہاد کے لیے) نکل کھڑے ہو، چاہے تم ہلکے ہو یا بوجھل، اور اپنے مال و جان سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔(۴۱)(آسان ترجمۃ القران)

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ائْتُوا الدَّعْوَةَ إِذَا دُعِيتُمْ(ترمذی شریف : ۱۰۹۸)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضِي اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہیں دعوت دی جائے تو تم دعوت میں آؤ“۔

کسی کا مؤمن کے گھر میں پیدا ہونا اور کسی کا کافر کے گھر میں ! خدا کی نا انصافی ہے ؟

سوال : ایک شخص مسلمان کے گھر پیدا ہو تو اسکے مسلمان ہونے کے چانسز 95 پرسنٹ ہیں، جبکہ دوسرا کافر کے گھر پیدا ہو ا سکے مسلمان ھونے کے چانس 3 پرسنٹ ھیں ، کیا یہ بے انصافی نہیں؟ کہ ایک کو جنت میں جانے کے 95 پر سنٹ چانس ملیں جبکہ دوسرے کو صرف 3 پر سنٹ جواب : بلوغت کے بعد عقل کافر کے گھر میں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی ملتی ہے اور مسلمان کے گھر پیدا ہونے والے بچے کو بھی ۔ اللہ کی عطاء کردہ عقل کے ذریعہ اللہ کی نشانیوں پر غور کر کے اللہ تک پہنچنے کا راستہ کافر کے گھر پیدا ہونے والے بچے کو بھی میسر ہے۔ اسی طرح بے شک ماحول کا اثر ہوتا ہے لیکن اس وقت پوری دنیا میں ذرائع ابلاغ کے عام ہونے کی وجہ سے دعوت اسلام کی صدا ہر جگہ پہنچ چکی ہے۔ اتمام حجت ہو چکا ہے ، اسلامی تعلیمات و اخلاقیات کا حسن ہر طرح کے کافر کو اسلام کا گرویدہ کر رہا ہے ایسی صورتحال میں اگر کوئی شخص بالغ عاقل ہو کر بھی اسلام و ایمان نہ لائے تو کس کا قصور ہے۔۔۔؟ اگر اسلام کی دعوت یا عقل کافر کے بچوں کو نہیں دی جاتی تو پھر انصاف پر کوئی سوال اٹھایا جا سکتا تھا۔ دوسرا جواب : جو کہا جا رہا ہے کہ ایک شخص جو مسلمانوں کے گھر پیدا ہوا ہے ، اسکے مسلمان ہونے کے چانس 95 پرسنٹ ہیں ، جبکہ دوسرا جو کافر کے گھر پیدا ہوا ہے ، اس کے مسلمان ہونے کے چانس 3 پرسنٹ ہیں۔ ایک شخص کا مسلمانوں کے گھر پیدا ہونا اور دوسرے کا کافر گھر پیدا ہونا یہ مسلمان اور کافر ہونے کیلیے معیار نہیں ہے ، اصل معیار ایمان اور عمل صالح ہے ، اگر ایک شخص مسلم گھرانے میں پیدا ہوا ہے ، لیکن اسکا اللہ کی ذات پر ایمان ہی نہیں ہے ، تو وہ مسلمان کے گھر پیدا ہونے کے باوجود مسلمان نہیں ہو سکتا، جبکہ دوسرا جو کافر کے گھر پیدا ہوا ہے ،اگر وہ صاحب ایمان ہے ، تو کافر کے گھر پیدا ہونے کے باوجود وہ شخص مسلمان کہلایا جائیگا ۔ تیسری بات : ہمیں کسی کے بارے کوئی بھی حتمی علم نہیں ہے ، کہ کون بندہ مسلم ہے اور کون نہیں اسلیے یہاں عدل و انصاف کا سوال ہی بے سود ہے ، اگر ہمیں کسی کافر کے بارے حتمی علم ہوتا کہ یہ آخر دم تک کافر رہیگا ، کافر ہو کر مریگا ، یا ایک شخص کے بارے حتمی طور پر علم ہوتا کہ یہ پکا مسلمان ہے اور تازیست مسلمان ہی ہوگا اور مسلمان ہو کر مریگا تب ہم سوال اٹھا سکتے تھے ، لیکن جب ہمیں دونوں کے بارے کوئی حتمی علم ہی نہیں کہ کون جنتی ہے اور کون جہنمی تو انصاف کا سوال بھی بے معنی ہو جاتا ہے۔ مثال : ایک شخص پر قتل کا الزام ہے ، اور جنہوں نے اس پر الزام لگایا ہے وہ قاضی سے مطالبہ کر رہیں کہ ہمیں انصاف دلایا جائے اور اس قاتل کو سزادی جائے لیکن قاضی اور جج ان سے شواہد کا مطالبہ کریگا قطعی علم کا مطالبہ کریگا کہ آپ اس کے چشم دید گواہ ہیں ؟ جب تک ملزم شخص کے بارے قطعی اور حتمی علم نہیں ہو جاتا اس کے بارے میں ٹھوس ثبوت نہیں مل جاتے تب تک قاضی انصاف کی کرسی نہیں لگائیگا اور محض دعوی کی بنیاد پر انصاف نہیں کریگا ۔ اسی مثال پر بندے کے کافر و مسلمان ہونے کو منطبق کریں کہ اس دنیا میں ہم سے کسی کو بھی کسی کے بارے کوئی قطعی اور حتمی علم نہیں ہے ، کہ یہ بندہ مسلمان ہو کر مریگا اور یہ کافر ہو کر جب کسی کے بارے کوئی قطعی علم ہے ہی نہیں تو ہم اللہ (جج) سے کس طرح مطالبہ کر سکتے ہیں کہ اس سے انصاف کیا جائے۔ نا انصافی پر ایویڈنس ہوں تب انصاف کیا جائیگا نہ ! محض تخیلات کی بنا پر انصاف کی عمارت کھڑی نہیں کی جاسکتی۔ ہاں ! بروز قیامت چونکہ ہم میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کا چشم دید گواہ ہو گا اس وقت اگر کسی سے نا انصافی ہو تو اللہ سے مطالبہ کیا جا سکتا ہے ، کہ اسے انصاف دیا جائے لیکن اس دن تو کسی سے نا انصافی ہی نہیں ہو گی بلکہ ہر کسی کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جائیگا وما اللہ بظلام للعبيد -

اہم مسئلہ

سلام میں پہل کرنا ؟ جب کسی مسلمان سے ملاقات ہو تو سلام میں پہل کرنا مزید فضیلت کا باعث ہے، ایک حدیث میں وارد ہے کہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے قرب کا سب سے مستحق وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے، اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے بری ہے۔(کتاب النوازل/ج:۱۵/ص:۲۳۴)

//