sallallahu alyhi vasallam

Naats

آیۃ القران

فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا(۵)إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا(۶)

چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ مشکلات کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے، (۵) یقیناً مشکلات کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے(۶)

حدیث الرسول ﷺ

قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ "‏ أَلاَ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ الْجَنَّةِ، كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَعَّفٍ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لأَبَرَّهُ، وَأَهْلِ النَّارِ كُلُّ جَوَّاظٍ عُتُلٍّ مُسْتَكْبِرٍ ‏"‏‏.‏(بُخاری شریف۔ ۶۶۵۷)

نبیﷺ نے پوچھا: کیا میں تم کو جنتی نہ بتلاؤں؟ (وہ) ہر کمزور، کمزور گردانا ہوا ہے، اگر اللہ پر قسم کھالے تو اللہ تعالی ضرور اس کی قسم پوری کریں ( اور اللہ کی صفات بندوں کو اپنانی چاہئے، اسی لئے ابرار المقسم مستحب ہے ) اور کیا میں تمہیں دوزخی نہ بتلاؤں؟ وہ ہر اکھڑ مزاج ، اکڑ کر چلنے والا، گھمنڈی ہے!(تحفۃالقاری)

​​​​کوڑے کھانا منظور ہے،منصبِ قضا منظور نہیں :

ابن ہبیرہ نے امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ(¹) کو منصب قضا سونپنا چاہا، لیکن انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا ـ امام ابو حنیفہؒ کے اس انکار پر اس نے قسم کھالی کہ اگر امام صاحب نے منصب قضا تسلیم نہیں کیا تو میں انھیں کوڑے لگاؤں گا اور پھر قید خانے میں ڈال دوں گا ـ امام ابو حنیفہؒ نے اس کی بارہا کوشش کے باوجود منصب قضا قبول کرنے سے انکار کردیا ، چنانچہ ابن ہبیرہ نے امام ابو حنیفہؒ کو اس قدر کوڑے لگائے کہ آپ کا منہ اور سر مار سے پھول گیا ـ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا : (( الضَّرْبُ بِالسِّیَا طِ فِی الدُّنْیَا أَھْوَن عَلَیَّ مِنَ الضَّرْبِ بِمَقَاطِعِ الْحَدِیدِ فِی الآخِرَۃِ )) " دنیا میں کوڑے کھالینا میرے لیے اس سے کہیں زیادہ آسان ہے کہ آخرت میں مجھے لوہے کے گُرز کا سامنا کرنا پڑےـ" ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (❶) امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابتؒ بہت بڑے عالم دین اور فقیہ تھے ـ وہ 80ھ/699ء میں "حدود" میں پیدا ہوئے ـ وہ کوفے میں خزّ (ریشمی کپڑا) بناتے اور اس کی تجارت کرتے تھے ـ امام ابو حنیفہؒ ، امام حمادؒ کے شاگرد تھے ـ ابن ہبیرہ کے بعد خلیفہ منصور نے انھیں قاضی بنانا چاہا مگر وہ آمادہ نہ ہوئے تو منصور نے 146ھ میں انھیں قید کردیا ـ انھوں نے بغداد میں قید ہی میں 150ھ/767ھ میں وفات پائی ـ امام یوسف،امام محمد،اور امام زفران کے نامور شاگرد تھےـ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ ج ۱ ص783-784)

اہم مسئلہ

ملازم کو تنخواہ طے کیے بغیر رکھنا جائز نہیں ہے اس سے معاملہ فاسد ہو جائے گا ، عقد کے وقت ہی تنخواہ طے کرنا ضروری ہے اور طے نہ کرنے کی صورت میں وہ اجرتِ مثل کا مستحق ہوگا‌ یعنی ایسا آدمی اتنی ہی ذمہ داری کے ساتھ دوسری جگہ کام کرتا اور اس کو جو تنخواہ ملتی اسی کا مستحق ہوگا۔(ماخوذ از : کاروباری مسائل اور اُن کا شرعی حل قسط اول/ ص:۹۳)

//