”مومن کو اپنے گناہوں پر جو درد و تکلیف ہوتی ہے وہ ایک پرندے کی تکلیف سے کئی زیادہ ہوتی ہے، کہ جب اسے کہیں پٹکا جائے یا پھینکا جائے“ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہ [الزهد والرقائق لإبن المبارك(٦٣)] اگر تم اسے تنہائیوں میں دیکھو تو وہ دل کو راکھ کر کے روتا ہوا، رنج و الم سے بلکتا ہوا، اور آنکھوں سے چشمے بہاتا ہوا، تم اسے دیکھو (اور پہلے سے جانتے نہ ہو) تو گمان کرو گے کہ اس کا کوئی جانِ جگر بچھڑ گیا ہے۔ حالانکہ معاملہ یہ نہیں ہے۔ اسے تو اپنے دین کا غم کھائے جا رہا ہے کہ اس کو کوئی آفت نہ آ لے دنیا جاتی ہے جائے، دین سلامت رہے۔ یہی دین اس کا کل سرمایہ ہے، اور اسی کے ضیاع کا اسے ڈر ہے۔ الغرباء للآجري ( اے اللہ دنیا کو ہمارے غموں کا محور نا بنانا ) "کاش میں کوئی راکھ ہوتا جسے ہوائیں لے اڑتیں۔" سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ امام ابن عقيل الحنبلي رحمه الله فرماتے ہیں : "میں نے لوگوں کے احوال کا جائزہ لیا تو بڑا ہی عجیب معاملہ پایا ... وہ گھروں کے اجڑنے پر روتے ہیں، پیاروں کی موت پر آہیں بھرتے ہیں، معاشی تنگ دستی پر حسرتیں کرتے ہیں اور زمانے کو برا بھلا کہتے ہیں! حالانکہ وہ دیکھتے ہیں کہ اسلام کی عمارت گر رہی ہے، دین فرقوں میں بٹ چکا ہے، سنتیں مٹ رہی ہیں اور بدعات کا غلبہ ہے، گناہوں کی کثرت ہے! لیکن ان میں سے اپنے دین کیلیے رونے والا کوئی نہیں ہے، اپنی عمر برباد کرنے پر کسی کو افسوس نہیں ہے، اپنے وقت کو ضائع کرنے پر کوئی غم نہیں ہے!! اور میں اس سب کا ایک ہی سبب دیکھتا ہوں کہ دین ان کی نظروں میں ہلکا ہو گیا ہے اور دنیا ان کی فکروں کا محور بن چکی ہے!" 📚 (الآداب الشرعية لابن مفلح : ٢٤٠/٣) ”روئے زمین پر تنہائی ہی مجھے راس آتی ہے۔ میں اکیلے جیتا ہوں، اکیلے ہی کھاتا ہوں اور اکیلے ہی غور و فکر کرتا ہوں۔ خوشی کے وقت بھی تنہا ہوتا ہوں اور دکھوں کا ساتھی بھی کوئی نہیں۔ اگر تو یہ تنہائی باعثِ لطف و راحت ہے تو یہ فانی دنیا کی ایک راحت ہے اور بس! اور اگر یہ تنہائی باعثِ کرب و حسرت ہے تب بھی یہ اسی دنیا کا ایک کرب ہے اور بس ...“ (جمهرة مقالات الشيخ محمود محمد شاكر : ٨٤٢/٢) قوله يا ربّ قلبي باظ، ولو لقيتُكَ على هذا أخشـى أن تُعـدْبنی "اے رب! میرا دل بگڑ چکا ہے، اور اگر میں تجھے اسی حال میں ملا تو ڈرتا ہوں کہ تُو مجھے عذاب دے گا۔" الشيخ سمير مصطفى ”بدن کا مرض تو موت کے ساتھ ختم ہو جائے گا، مگر دل کا مرض موت کے بعد بھی عذاب بنا رہے گا۔“ (مختصر منهاج القاصدين لابن قدامة : ١٨٨) "ٹوٹے دل " ”منکسرین (ٹوٹے ہؤوں) کے ساتھ بھی نرمی برتنی چاہیے، یعنی وہ لوگ جنہیں کوئی دکھ پہنچا ہو اور وہ ٹوٹ چکے ہوں۔ یہ ہڈیوں کا ٹوٹنا نہیں، دل کا ٹوٹنا ہے۔ جیسے کسی پر کوئی آفت آئے اور وہ دیوالیہ ہو جائے، یا کسی کا قریبی یا دوست فوت ہو جائے تو اس کا دل بکھر جائے! بہر کیف ایسوں کے ساتھ ہمدردی ضروری ہے، اسی لیے شریعت نے تعزیت کا تصور دیا ہے۔“ (شرح رياض الصالحين لابن عثيمين🖤 : ٨٠/٣) ”او فانی لذتوں کے رسیا! موت کی سختیوں کیلیے بھی کچھ تیار کیا ہے؟! اپنے سود و زیاں کا کبھی حساب لگایا ہے؟! کیا تمہیں لگتا ہے کہ تم نرم و گداز بستروں پر لیٹ کر اہلِ شرف کے درجات تک پہنچ جاؤ گے؟! ہر گز نہیں! ... “ (المدهش لابن الجوزي رحمه الله : ٢٠٦) " یہ دنیا تو محض غموں اور مصیبتوں کی آماجگاہ ہے " حسن بصری رحمہ اللّٰہ [الزهد لابن أبي الدنيا ٤٧٨]. ‏ " تمسَّكْ بالدُّعاءكأنَّكَ لا تعرفُ علاجاً غيره !" ‏“دعا کے ساتھ ایسا جُڑ جائیں کہ گویا دعا کے علاوہ کوئی علاج آپ جانتے ہی نہیں” لا تـقُـل يارب عندي هم كبير ولكن قُل ياهَم لي رب كبير "یہ نہ کہو کہ اے رب میرا غم بہت بڑا ہے، بلکہ کہو: اے غم! میرا رب بہت بڑا ہے۔"🌻 امام مالك بن دينار رحمه الله فرماتے ہیں: سلف صالحین تین چیزوں کی وصیت کیا کرتے تھے: "زُبان بند رکھنے کی، کثرتِ اِستغفار کی، اور لوگوں سے کنارہ کَش رہنے کی!" 📚 (صفة الصفوة : ۱۹۶/۳) طاہر المقدسي رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "سلامتی کا راز لوگوں سے کنارہ کشی میں ہے، اور حقیقی خوشی اللہ عز و جل سے خلوت (تنہائی میں عبادت) میں ہے۔" 📚 (طبقات الأولياء، ص: ٣٩٤) امام وھیب بن الورد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حکمت کے دس حصوں میں سے نو خاموشی کے اور دسواں حصہ لوگوں سے کنارہ کش رہنا! خطابی کہتے ہیں: ان میں سب سے بہتر جز لوگوں سے الگ تھلگ رہنا ہے! 📚 (الـعـزلـة، ١٨/١) امام الدنيا احمد بن حنبل رحمه الله فرماتے ہیں: "میری ایک نہ ممکن سی خواہش ہے کہ کوئی ایسی جگہ ہو جہاں لوگوں میں سے کوئی نہ آسکے۔" "مجھے لگتا ہے کہ تنہائی میرے دل کو زیادہ بھاتی ہے۔" "میرا دل کرتا ہے کہ میں مکہ کی کسی گھاٹی کو مسکن بنا لوں، پھر مجھے جاننے والا کوئی نہ ہو۔" "عبدالوہاب سے کہنا کہ گمنامی اختیار کرے، کیونکہ میں شہرت کی آزمائش سے دو چار ہو چکا ہوں۔"

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

حضرت تھانوی کا ایک واقعہ

حضرت تھانوی کا ایک واقعہ

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے اپنے سارے مریدین اور متعلقین کو یہ ہدایت تھی کہ جب کبھی ریلوے میں سفر کرو، اور تمہارا سامان اس مقدار سے زائد ہو جتنا ریلوے نے تمہیں مفت لیجانے کی اجازت دی ہے، تو اس صورت میں اپنے سامان کا وزن کراؤ اور زائد سامان کا کرایہ ادا کرو، پھر سفر کرو۔ خود حضرت والا کا اپنا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ریلوے میں سفر کے ارادے سے اسٹیشن پہنچے، گاڑی کے آنے کا وقت قریب تھا، آپ اپنا سامان لے کر اس دفتر میں پہنچے جہاں پر سامان کا وزن کرایا جاتا تھا اور جاکر لائن میں لگ گئے۔ اتفاق سے گاڑی میں ساتھ جانے والا گارڈ وہاں آگیا اور حضرت والا کو دیکھ کر پہچان لیا، اور پوچھا کہ حضرت آپ یہاں کیسے کھڑے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ میں سامان کا وزن کرانے آیا ہوں۔ گارڈ نے کہا کہ آپ کو سامان کا وزن کرانے کی ضرورت نہیں، آپ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں، میں آپ کے ساتھ گاڑی میں جا رہا ہوں، آپ کو زائد سامان کا کرایہ دینے کی ضرورت نہیں۔ حضرت نے پوچھا کہ تم میرے ساتھ کہاں تک جاؤ گے ؟ گارڈ نے کہا کہ میں فلاں اسٹیشن تک جاؤں گا۔ حضرت نے پوچھا کہ اس اسٹیشن کے بعد کیا ہوگا؟ گارڈ نے کہا کہ اس اسٹیشن پر دوسرا گارڈ آئے گا، میں اس کو بتادوں گا کہ یہ حضرت کا سامان ہے، اس کے بارے میں کچھ پوچھ گچھ مت کرنا۔ حضرت نے پوچھا کہ وہ گارڈ میرے ساتھ کہاں تک جائے گا؟ گارڈ نے کہا کہ وہ تو اور آگے جائے گا، اس سے پہلے ہی آپ کا اسٹیشن آجائے گا۔ حضرت نے فرمایا کہ میں تو اور آگے جاؤں گا یعنی آخرت کی طرف جاؤں گا اور اپنی قبر میں جاؤں گا، وہاں پر کونسا گارڈ میرے ساتھ جائے گا؟ جب وہاں آخرت میں مجھ سے سوال ہوگا کہ ایک سرکاری گاڑی میں سامان کا کرایہ ادا کئے بغیر جو سفر کیا اور جو چوری کی اس کا حساب دو تو وہاں پر کونسا گارڈ میری مدد کرے گا؟ ____________📝📝____________ کتاب : معاملات صاف رکھیں ۔ صفحہ نمبر: ۱۱، ۱۲ مصنف : مفتی محمد تقی عثمانی صاحب انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ