https://islamictube.in/new_site/public/images/news_images/7190_2025-10-20_islamictube.webp

غزہ میں جنگ بندی کی خلاف ورزیاں: ایک دردناک داستان

غزہ کی سرزمین، جو برسوں سے سوز و گداز کی داستان سنا رہی ہے، ایک بار پھر خون و آہ کے رنگ میں رنگین ہوئی ہے۔ غزہ کے حکومتی میڈیا آفس نے ایک ایسی حقیقت کو آشکار کیا ہے جو انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ اس کے مطابق، اسرائیل نے امن معاہدے کے بعد سے اب تک جنگ بندی کی 80 بار خلاف ورزیاں کی ہیں، جو اس کی جارحانہ روش اور امن کے دعوؤں کی قلعی کھولتی ہیں۔ بیان کے مطابق، 10 اکتوبر سے لے کر اب تک اسرائیلی حملوں نے 97 معصوم فلسطینیوں کی جان لے لی اور 230 کو زخمی کر دیا۔ یہ اعداد و شمار محض تعداد نہیں، بلکہ ہر ایک شہید اور زخمی کے پیچھے ایک گھر، ایک خاندان اور ایک ادھوری کہانی چھپی ہے۔ غزہ کے میڈیا نے ان کارروائیوں کو بین الاقوامی انسانی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا، جو اسرائیل کے خونریز عزائم کی عکاسی کرتی ہیں۔ دوسری جانب، اسرائیلی فوج اپنے اقدامات کو حماس کی مبینہ خلاف ورزیوں کا ردِعمل قرار دیتی ہے، مگر حماس نے ان الزامات کو سرے سے مسترد کر دیا۔ یہ الزامات و ترشحات کا سلسلہ، جو برسوں سے جاری ہے، غزہ کے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس صورتحال پر کہا کہ غزہ میں جنگ بندی اب بھی نافذ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ حالات مکمل طور پر پرامن رہیں۔ انہوں نے صہیونی ظالم اور وحشی فوج کو دھمکی دینے کے بجاے حماس کو خبردار کیا کہ اگر حماس نے کوئی خلاف ورزی کی تو اس کا سخت لیکن مناسب جواب دیا جائے گا۔ خیر ! یہ الفاظ، جو امید کی کرن دکھاتے ہیں، غزہ کے باسیوں کے لیے محض ایک سراب سے زیادہ کیا ہیں؟ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے تجویز پیش کی کہ حماس کے ہتھیار ڈالنے سے قبل غزہ میں سیکیورٹی انفراسٹرکچر قائم کیا جائے۔ انہوں نے خلیجی عرب ممالک کے امن دستوں کی تعیناتی پر زور دیا تاکہ قانون و نظم بحال ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تجاویز غزہ کے زخموں پر مرہم رکھ سکتی ہیں، یا یہ محض سیاسی بیان بازی کا ایک اور باب ہے؟ غزہ کی یہ داستان، جو خون، آنسوؤں اور جدوجہد سے رقم ہوئی ہے، عالمی برادری سے ایک ہی سوال پوچھتی ہے: امن کے نام پر یہ کھیل کب تک جاری رہے گا؟