ڈاکٹر بھی ماہر ہو اور دوا بھی مفید ہو لیکن پرہیز واحتیاط نہ کی جائے تو عموما نہ دوا اثر کرتی ہے اور نہ ڈاکٹر کا علاج مفید ثابت ہوتا ہے، یہ سب مانتے ہیں کہ یہاں ڈاکٹر کی مہارت اور دوا کی افادیت میں کوئی مسئلہ نہیں بلکہ گڑبڑ یہی ہے کہ مریض احتیاط وپرہیز نہیں کرتا۔ اسی طرح جب علماء کرام کہتے کہ گمراہوں اور اہلِ باطل کو سننے اور پڑھنے سے پرہیز کریں تو وہاں بھی نہ علماء کرام کی مہارت میں کوئی کمی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے دین اور مذہب میں کوئی نقص ہوتا ہے بلکہ سارا مسئلہ پرہیز نہ کرنے کا ہوتا ہے کہ عام آدمی علم نہ ہونے کی وجہ سے گمراہوں کی چرب زبانی اور فریب کاری سے متأثر ہوکر گمراہ ہوسکتا ہے۔ اور ہاں جس طرح پرہیز بتانا ڈاکٹر کی جانب سے خیر خواہی کی علامت سمجھی جاتی ہے اسی طرح گمراہوں کو سننے اور پڑھنے سے پرہیز بتلانا بھی علماء کرام کی جانب سے خیر خواہی ہی سمجھنی چاہیے۔ اس لیے اہلِ حق سے دین سیکھنے اور وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ گمراہ طبقات کو سننے اور پڑھنے سے بالکلیہ اجتناب ضروری ہے! ✍️۔۔۔ بندہ مبین الرحمٰن جامعۃ الابرار مسجد اختر گلبرگ بلاک 11 کراچی

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ عدالت میں

حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ عدالت میں

 ایک مرتبہ حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ پر غداری کا مقدمہ چلا اور فرنگی کی عدالت ہال کراچی میں ان کی پیشی ہوئی، مولانا محمد علی جوہر اور بہت سارے دوسرےاکابرین بھی وہاں جمع تھے، فرنگی نے بلایا اور کہا کہ حسین احمد! یہ جو تم نے فتویٰ دیا ہے کہ انگریز کی فوج میں شامل ہونا حرام ہے۔ اس کی اجازت نہیں، تمہیں پتا ہے کہ اسکا نتیجہ کیا ہوگا؟ حضرت نے فرمایا کہ ہاں مجھے پتا ہے اس کا نتیجہ کیا ہے، اس نے پوچھا کہ کیا نتیجہ ہے؟ حضرت کے کندھے پر ایک سفید چادر تھی، حضرت نے اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ اس کا نتیجہ ہے، فرنگی نے کہا کہ کیا مطلب؟ فرمایا کہ کفن ہے، میں اپنے ساتھ لے کر آیا ہوں تاکہ تم اگر مجھے پھانسی بھی دے دو گے تو کفن میرے پاس ہوگا، مولانا محمد علی جوہر نے حضرت کے پاؤں پکڑ لیے اور عرض کیا کہ حضرت! تھوڑا سا ذومعنی سا جواب دے دیں جس سے آپ بچ جائیں، کیونکہ ہمیں آپکی بڑی ضرورت ہے، آپ ہمارے سر کا تاج ہیں، آپ جیسے اکابر ہمیں پھر نہیں ملیں گے مگر حضرت مدنیؒ کی اس وقت عجیب شان تھی۔سبحان اللہ فرنگی کہنے لگا: حسین احمد! تمہیں کفن لانے کی کیا ضرورت تھی؟ جس کو حکومت پھانسی دے اس کو کفن بھی حکومت دیتی ہے، حضرت مدنیؒ نے فرمایا: اگرچہ کفن حکومت دیتی ہے، لیکن میں اپنا کفن اس لیے لایا ہوں کہ فرنگی کے دیے ہوئے کفن میں مجھے اللہ کے حضور جاتے ہوئے شرم آتی ہے، میں قبر میں تمہارا کفن بھی لے کر جانا نہیں چاہتا۔ ہمارے اکابر کیا استقامت کے پہاڑ تھے۔ اللہ اکبر شجرہ نسب سے حسین احمد مدنی سید ہیں۔۔۔اور حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اولاد میں سے ہیں۔