*_ماں باپ کے جھگڑوں کا خاموش گواہ "بچپن"!!_* دروازے کی اوٹ میں کھڑی ایک معصوم سی بچی، ہاتھ میں کھلونا لیے، خاموش آنکھوں سے سب دیکھ رہی ہے۔۔۔ نہ وہ کچھ کہہ سکتی ہے، نہ سمجھا سکتی ہے۔۔۔ لیکن ہر چیخ، ہر الزام، ہر اونچی آواز اس کے دل میں ایک زخم چھوڑ جاتے ہیں۔ ماں باپ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، مگر درحقیقت ان کی لڑائی کا سب سے بڑا نقصان بچہ اٹھاتا ہے۔ وہ ہر دن، ہر رات ٹوٹتا ہے… خاموشی سے، تنہائی میں۔ یہ بچپن جو ہنسی، محبت اور تحفظ مانگتا ہے، وہ گھر کی چار دیواری میں ڈر، چیخوں اور آنسوؤں میں قید ہو جاتا ہے۔ ماں باپ کے رشتے میں تلخی ہو تو بچہ نہ ماں کا ہو پاتا ہے، نہ باپ کا… بلکہ وہ صرف "دھوئیں" کا وہ سایہ بن جاتا ہے جو زندگی بھر اندھیرے میں سانس لیتا ہے!! *لہٰذا غور کریں کہ آپ اپنے بچوں کے لئے کیسے ہیں؟؟؟*

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

اختلاف کے باوجود بے نظیر اتحاد:

اختلاف کے باوجود بے نظیر اتحاد:

حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ میں بعض مسائل کا اختلاف رہا ہے ؛ مگر ایک دوسرے کے احترام میں کبھی فرق نہیں آیا ، کون نہیں جانتا کہ خونِ عثمان رضی اللہ عنہ کے مسئلے میں صحابۂ کرام میں شدید اختلاف ہوا اور اس کی بنا پر جنگ بھی ہوئی ؛ مگر کیا مجال کے ان کے اس اختلاف سے ایک دوسرے کے احترام میں فرق آجائے ۔ چناںچہ عین جنگ کے موقعے پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو روم کی عیسائی سلطنت کی طرف سے جس کا سربراہ ’’ قیصر ‘‘ تھا خط ملا ۔ اس میں لکھا تھا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کے امیر ( حضرت علی رضی اللہ عنہ ) نے آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اور تم پر ظلم کر رہے ہیں ، اگر آپ چا ہیں ؛ تو ہماری فوج آپ کی مددکو بھیچ دیں گے ۔ اگر ہم آپ کی جگہ ہو تے ، تو مخالف کی تو ہین و تذلیل اور اس کو شکست دینے کے لیے فوج منگوالیتے ۔ مگر گوش ہوش سے سننے کے قابل ہے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قیصر روم کو جواب یہ دیا : ’’ اے نصرانی کتے ! تو ہمارے اختلاف سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ؟ ! یاد رکھ اگر تو نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف ترچھی نگاہ سے بھی دیکھا ، تو سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کا سپا ہی بن کر تیری آنکھ پھوڑنے والا میں ہوں گا ۔ ‘‘ ایسے سینکڑو ں واقعات ہیں ، یہاں مثال کے طور پر ایک نقل کیاگیا ہے ، غرض یہ ہے کہ امت کے اتحاد کے لیے لا زم ہے کہ وہ ایک دوسرے کا احترام اور اکرام کریں اور اپنے اختلا فات کو حدود سے آگے نہ بڑھنے دیں اور آپس میں حسنِ سلوک کا معاملہ کریں ۔ (واقعات پڑھئے اور عبرت لیجئے)