*(تاریخ کے جھروکے سے)* *🗼وہ مینار جس کی وجہ سے پورے شہر کے سر قلم کر دیے گئے⚔️* ✍🏻یہ تیرہویں صدی تھی شورشوں کا دور تھا ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی تاریخ بتاتی ہے چنگیز خان کھوپڑیوں کے مینار بناتا ہوا 1220ء میں بخارہ پہنچا تو وہ اس مینار کے سامنے رک گیا مینار 46 میٹر اونچا تھا چنگیز خان نے مینار کی آخری حد دیکھنے کے لیے سر اٹھایا تو اس کی پگڑی گر گئی وہ پگڑی اٹھانے کے لیے بے اختیار جھکا اور اسے اپنا وعدہ یاد آگیا۔۔۔ اس نے خود سے وعدہ کیا تھا وہ زندگی میں کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکے گا لیکن اینٹوں کے ایک بے جان مینار نے دنیا کے سب سے بڑے فاتح کو اپنے قدموں میں جھکا دیا وہ شرمندہ ہو گیا پگڑی اٹھائی سر پر رکھی اور حکم دیا اس پورے شہر میں اس مینار کے علاوہ ساری عمارتیں گرا دی جائیں اور سارے سر اتار دیے جائیں۔ چنگیزی فوج آگے بڑھی پورے بخارہ کے سر اتار کر کلاں مسجد میں جمع کیے سروں کا مینار بنایا اور مینار پر انسانی چربی کا لیپ کر کے آگ لگا دی شہر کی تمام عمارتیں بھی گرا دی گئیں۔۔۔۔ صرف کلاں مینار بخارہ کی قدیم مسجد اور اسماعیل سمانی کا مقبرہ بچ گیا مینار پگڑی کی مہربانی سے بچا جب کہ لوگوں نے مسجد اور اسماعیل سمانی کے مقبرے کو ریت سے ڈھانپ دیا تھا یہ دونوں عمارتیں ریت کا ٹیلہ بن گئیں اور دونوں بچ گئیں فارسی میں کلاں بڑے کو کہتے ہیں اور کلا پگڑی کو لہٰذا یہ مینار بلندی کی وجہ سے کلاں کہلاتا ہے یا پھر چنگیز خان کی پگڑی کی وجہ سے کلا مینار یہ واضح نہیں تاہم یہ طے ہے وہ عمارت اتنی بلند ہے کہ سر سے ٹوپی گر جاتی ہے" اس محاورے نے اسی مینار کے سائے میں جنم لیا تھا ۔۔۔ آج بخارہ شہر پھر سے آباد ہو چکا ہے مگر چنگیز خان کی قبر تک معلوم نہیں سچ کہا تھا کسی نے ظلم جب مٹتا ہے تو ظالم کا بھی نشان نہیں ملتا۔ 📌 نقل و چسپاں