*اس👇🏻شئیر کرکے آپ بہت سے لوگوں کو بچا سکتے ہیں* میرا ایک عبرتناک واقعہ تحریر: بدرالاسلام قاسمی استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند میں عام طور پر بہت ذاتی قسم کے مسائل، تصاویر یا واقعات کو سوشل میڈیا پر عام کرنے کا قائل نہیں ہوں، البتہ اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آئے جس میں کچھ درسِ عبرت ہو، مقامِ شکر ہو، تشجیع و حوصلہ بخش عنوانات ہوں، یا احباب کی دعائیں مطلوب ہوں تو ضرور شیئر کرتا ہوں. ایسا ہی ایک واقعہ کل گزشتہ مؤرخہ 18 نومبر 2024ء بروز پیر میرے ساتھ پیش آیا. دوپہر تقریباً ڈیڑھ بجے میں نور گرافکس میں کچھ کام کر رہا تھا، دونوں بچے پڑھنے کے لیے گھر سے نکلے تو سوچا اوپر جا کر کھانا کھا لیا جائے، اوپر آیا تو تین سالہ چھوٹا لڑکا بیچ صحن میں جھولا جھول رہا تھا، والدہ محترمہ ذرا فاصلے پر واقع اپنے کمرے میں تھیں، اہلیہ نظر نہیں آئیں تو میں ذاتی کمرے کی جانب متوجہ ہوا، اس سے بالکل متصل غسل خانے میں سے کسی کے ہانپنے اور زور زور سے سانس لینے کی آواز آتی محسوس ہوئی، اہلیہ کو نام لے کر پکارا، ہلکے سے دروازے پر دستک دی، لیکن جواب ندارد اور وہ آواز جوں کی توں، میرا ماتھا ٹھنکا اور میں نے دروازہ توڑنے کے لئے متعدد مرتبہ کندھے سے اس پر زور لگایا، پانچ چھ ضرب سے دروازہ ٹوٹا تو اہلیہ کو ایک کونے میں بے ہوش پایا، چیخ چیخ کر والدہ کو پکارا، اہلیہ بالکل بے ہوش تھیں، آنکھوں کی کیفیت ناقابل بیان، دانت سے دانت ملے ہوئے، کچھ سمجھ نہیں آیا، سر پر قیامت کھڑی محسوس ہوئی، بڑی مشکل سے والدہ کے ساتھ مل کر انھیں غسل خانے سے نکالا، ڈاکٹر کی طلب میں باہر کو لپکا، زبان پر ذات باری تعالیٰ کا نام جاری تھا اور آنکھیں مددگار ڈاکٹر کو تلاش کر رہی تھیں، گھر سے متصل دونوں ڈاکٹر کلینک پر نہیں تھے، ذرا دور پر واقع ایک ڈاکٹر صاحب کو کال کی تو وہ بھی گھر سے کافی فاصلے پر تھے، ندیم بھائی (مینیجر مکتبہ النور) کو محلے کے ایک دوسرے ڈاکٹر صاحب کو لینے بھیجا تو وہ بھی کسی ایمرجنسی کیس کو دیکھ رہے تھے، پھر فوراً انھیں دارالعلوم وقف کے پاس واقع رازی کلینک بھیجا، جہاں میرے استاذ مرحوم حضرت مولانا غلام نبی کشمیری علیہ الرحمہ کے فرزند ڈاکٹر سلمان ولی خدمت انجام دیتے ہیں. دروازہ توڑنے سے لے کر اب تک تقریباً پندرہ منٹ ہو چکے تھے، اہلیہ کی سانس چل رہی تھی لیکن بولنے پر قدرت نہ تھی، کچھ دیر میں ان کے حواس لوٹنے شروع ہوئے، ہلکے ہلکے ہونٹ ہلنے لگے، جیسے کچھ کہنا چاہتی ہوں، میں نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی تو وہ کلمہ طیبہ کا ورد کر رہی تھیں، ساتھ ہی کہہ رہی تھیں کہ میری غلطیاں معاف کرنا. میں اور والدہ محترمہ انھیں مسلسل تسلی دیتے رہے، والدہ پڑھا ہوا پانی لے آئیں اور وہ پلایا، اتنے میں ڈاکٹر سلمان ولی صاحب بھی آ پہنچے اور فوری طور پر بی پی اور آکسیجن لیول وغیرہ چیک کیا، تسلی دی، اور انجکشن لگائے. انھوں نے کہا کہ غسل خانے کے اندر گیس گیزر ہونے کی وجہ سے آکسیجن ختم ہو رہی تھی جس کی وجہ سے ان پر غشی طاری ہوئی. آپ اطمینان رکھیں، ایک دو دن میں مکمل صحت یاب ہو جائیں گی. ان شاء اللہ یہ آدھا گھنٹہ میری زندگی کے سخت ترین لمحات میں سے تھا، اللہ کا لاکھ لاکھ فضل رہا، میں جتنا بھی اس رحیم و کریم کا شکر ادا کروں وہ کم ہے. اس واقعے سے معلوم ہوا کہ کسی بھی صورت میں گیس گیزر غسل خانے کے اندر نہیں لگوانا چاہیے، خدا نخواستہ یہ کسی بڑے حادثے کا سبب ہو سکتا ہے، اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات سننے میں آ چکے ہیں. اللہ کے فضل و کرم سے اہلیہ محترمہ رو بہ صحت ہیں، احباب سے مزید دعاؤں کی درخواست ہے. جزاکم اللہ خیرا

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

سمجھداری يا چالاکی __؟؟

سمجھداری يا چالاکی __؟؟

ایک شاطر اور چالاک مالدار شخص کسی گاؤں میں ایک کسان کے پاس پہنچا اور اُسے پارٹنر شپ کی آفر کی، کہ رقم میری ہوگی اور محنت تمہاری! لیکن جب فصل تیار ہو جائے گی تو جو حصّہ زمین کے اندر ہوتا ہے وہ تمہارا جبکہ اوپر والا سارا میرا ہوگا (یہ چالاکی اس نے اس لئے کی کہ زمین میں جڑیں ہوتی ہیں جو اس بے وقوف کسان کے حصے میں آئیں گی اور اصل قیمت تو اوپر والے حصے کی ہوتی ہے وہ میں لے اُڑوں گا) بہرحال کسان نے کچھ دیر سوچا اور آفر قبول کرلی۔ جب فصل تیار ہوگئی تو چالاک مالدار اپنا حصہ لینے پہنچا تو یہ دیکھ کر اپنا سر پکڑ لیا کہ کسان نے پیاز کی فصل بوئی تھی چنانچہ معاہدے کے مطابق پیاز کسان کے حصے میں آئی اور اوپر کے بے قیمت پتے مالدار کو ملے۔ چالاک مالدار نے سبق سیکھ کر باز آنے کے بجائے ایک اور داؤ کھیلنے کا سوچا اور کسان کو ایک مرتبہ پھر پارٹنر شپ کی آفر کی لیکن اس مرتبہ شرط یہ رکھی کہ فصل کا جو حصہ زمین کے اندر ہوگا وہ میرا اور اوپر والا تمہارا! کسان نے یہ شرط قبول کرلی۔ جب فصل تیار ہونے پر چالاک مالدار اپنا حصہ لینے پہنچا تو دیکھ کر ہکّا بَکّا رہ گیا کہ کسان نے گَنّے اُگائے تھے جس کی بےکار جڑیں اس کے حصے میں آئیں اور قیمتی گَنّے کسان کو ملے، کسان کی سمجھداری کے ہاتھوں دو مرتبہ اپنی چالاکی کا نقصان اُٹھانے کے بعد بھی مالدار نے ہار نہیں مانی اور سارا حساب چُکانے کے لئے کسان کو اگلی فصل کے لئے رقم دیتے ہوئے کہا: میں دو مرتبہ نقصان میں رہا ہوں اس لئے اس مرتبہ فصل کا نچلا اور اُوپر والا حصہ میرا ہوگا درمیان میں جو کچھ ہوگا وہ تمہارا ہوگا۔ اب کی بار فصل تیار ہوئی تو چالاک مالدار خوشی خوشی کھیتوں میں پہنچا کہ اس مرتبہ فائدہ صرف میرا ہوگا، لیکن کھیتوں میں پہنچ کر اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا کہ کسان نے اس مرتبہ مکئی (چھلیاں) اُگائی تھی جس کا نچلا اور سب سے اوپر والا حصہ بے قیمت ہوتا ہے اور اصل قیمت درمیان میں موجود چَھلی کی ہوتی ہے۔ یوں کسان کی سمجھداری نے مالدار کی چالاکی کو شکست دے دی۔ پیارے بھائیو! عقل اللہ پاک کی دی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے، اب یہ انسان پر موقوف ہے کہ وہ عقل کا استعمال مثبت کرتا ہے یا منفی! سمجھداری میں کرتا ہے یا چالاکی میں! 🖋🌹💠منقول از : سبــق آمـوز کہــانیــاں 💠🌹🖋