ملفوظ: رمضان کی تیسری عبادت اعتکاف *ملفوظاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ* *رمضان کی تیسری عبادت اعتکاف* ارشاد فرمایا کہ رمضان میں (روزہ اور تراویح کے علاوہ) ایک تیسری عبادت اور بھی ہے یعنی رمضان المبارک کے اخیر دس دن میں اعتکاف۔ یہ ایسی سنت ہے کہ سب کے ذمہ اس کا ادا کرنا ضروری ہے لیکن اگر بستی میں ایک شخص اعتکاف کرلے تو سب کی طرف سے کافی ہے (ورنہ سب گنہگار ہوں گے)۔ اور اعتکاف اسی کو کہتے ہیں کہ یہ ارادہ کرکے مسجد میں پڑا رہے کہ اتنے دن تک پیشاب یا پاخانہ وغیرہ کی مجبوری کے بغیر یہاں سے نہ نکلوں گا۔ اور روزہ اور تراویح کی طرح اس میں بھی نفس کی ایک پیاری چیز چھوٹتی ہے یعنی کھلے مہار (آزاد ہو کر گھومنا) پھرنا، اور اسی طرح اس میں بھی دکھلاوا نہیں ہوسکتا کیونکہ کسی کو کیا خبر کہ مسجد میں کسی خاص نیت سے بیٹھا ہے یا ویسے ہی آگیا ہے۔ حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص رمضان میں دس روز کا اعتکاف کرے اس کو دو حج اور دوعمرہ جیسا ثواب ہوگا (بیہقی)۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اعتکاف کرنے والے کے حق میں فرمایا کہ وہ تمام گناہوں سے رکا رہتا ہے اور اس کو ثواب ایسا ملتا ہے جیسے کوئی تمام نیکیاں کررہا ہو (مشکوۃ از ابن ماجہ)۔ اور ایک فضیلت اس میں یہ بھی ہے اس میں مسجد میں حاضر رہنا پڑتا ہے اور حدیث شریف میں مسجد میں رہنے کی بہت بڑی فضیلت آئی ہے۔ البتہ عورتیں گھر ہی میں اپنے نماز پڑھنے کی جگہ اعتکاف کریں۔ (احکامِ اعتکاف، صفحہ ۱۵)

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کو رحْـمٰن کہنا جائز نہیں :

اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کو رحْـمٰن کہنا جائز نہیں :

----------------------------------------- "رحْـمٰن" کا لفظ اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ حرام ہے ـ اگر کوئی شخص کسی انسان کو رحْـمٰن کہے تو یہ شرک ہے، کیوں کہ اللہ تبارک و تعالٰی کے سوا کوئی شخص ایسا نہیں ہوسکتا جس کی رحمت اتنی وسیع ہو،لٰہذا کسی اور کو رحمن یا اَلرَّحْـمٰن کہنا جائز نہیں ـ اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آج کل ہمارے معاشرے میں جو غلط رواج پڑ گیا ہے کہ کسی کا نام اگر عبدالرحمن ہے تو اس کو مخفف ( abbreviate) کرکے رحمن صاحب! کہہ دیا جاتا ہے،یہ بہت غلط بات ہے ـ رحمن کا لفظ اللہ تبارک و تعالٰی کی ذات کے علاوہ کسی اور کے لیے استعمال نہیں ہوسکتا،لٰہذا اگر کسی کا نام عبدالرحمن ہے تو اس کا نام پورا عبدالرحمن ہی لینا چاہیے، صرف رحمن کہہ کر اس کو خطاب کرنا یا اس کا حوالہ دینا درست نہیں اور اندیشہ ہے کہ غیر ارادی طور پر خدانخواستہ یہ انسان کو کہیں شرک کے قریب نہ لے جائے ـ اللہ تعالٰی اس سے ہم سب کو بچائے ـ لہذا اس سے بہت زیادہ بچنے کی ضرورت ہے ـ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے وہ نام یا وہ صفات جو صرف اللہ تعالٰی کے ساتھ خاص ہیں،جیسے الغفار،القہار،الخالق وغیرہ،اُن میں بھی یہ احتیاط رکھنی چاہیے، مثال کے طور پر اگر کسی کا نام عبدالخالق ہو تو اسے صرف خالق کہہ کر بلانا درست نہیں ہے ـ رحیم کا لفظ البتہ اس معاملے میں رحمن سے مختلف ہے،کیوں کہ رحیم کے معنٰی ہوتے ہیں جس کی رحمت مکمل اور پوری ہو ـ چونکہ یہ وصف کسی انسان میں بھی اللہ تعالٰی کی تخلیق کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ جب کوئی انسان کسی انسان کے ساتھ رحم کا معاملہ کرے تو مکمل رحم کا معاملہ کرے،لٰہذا رحیم کا لفظ اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی فرد کے لیے استعمال کرنا جائز ہے ـ خود قرآن کریم نے کہا ہے : لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّـمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْـمٌ ● ترجمہ: لوگو تمہارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے جو تمہی میں سے ہے،جس کو تمہاری ہر تکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے،جسے تمہاری بھلائی کی دُھن لگی ہوئی ہے،جو مومنوں کے لیے انتہائی شفیق،نہایت مہربان ہے ـ یہاں پر حضور نبی کریم ﷺ کو رحیم فرمایا گیا ہے،جس کا مطلب ہے کہ آپ رحم کرنے والے ہیں اور آپ کی رحمت جس پر بھی ہے پوری ہے،لٰہذا اس سے ثابت ہوا کہ کسی انسان کے لیے بھی رحیم کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے،اگرچہ اس کا صحیح اور حقیقی مصداق اللہ تعالٰی ہی ہیں،لیکن اپنے لغوی معنی میں اس کو غیرُاللہ کے لیے استعمال کرنا بھی جائز ہے ـ (ماہنامہ البلاغ جنوری 2024 ص نمبر ۱۳،۱۴)