ایک مقبول ولی کی پیشین گوئی

حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب سہارنپوری جو بڑے صاحب کشف و کرامات تھے، ان کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ پنجاب سے حکیم نورالدین بسلسلہ معالجہ حضرت شاہ صاحب کے پاس آئے ... حضرت نے ان سے فرمایا کہ حکیم صاحب پنجاب میں کوئی جگہ قادیان ہے، وہاں سے کسی نے نبوت کا دعوی تو نہیں کیا ؟ حکیم صاحب نے کہا کہ کسی نے نہیں کیا ... حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ وہاں سے ایک شخص نبوت کا دعوی کرے گا اور لوح محفوظ میں آپ کو اس کا مصاحب لکھا ہے، آپ کے اندر ایک مرض ہے ( بحث کرنے اور الجھنے کا یہ مرض آپ کو وہاں لے جائے گا اور آپ مبتلا ہوں گے۔ ہم تو اس وقت نہ ہوں گے۔ مگر آپ کو باذن الہی) پہلے سے مطلع کیے دیتے ہیں ... چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور یہ حکیم صاحب اس سے مناظرہ کرنے کے لئے گئے اور اس کے دام میں پھنس گئے اور اس پر ایمان لے آئے اور پھر اس کے خلیفہ اول ہوئے ... نعوذ باللہ ) (آپ بیتی از شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا رحمہ اللہ ) ____📝📝📝____ کتاب : قابلیت اور مقبولیت ۔ صفحہ نمبر: ۱۰۲۔ صاحب کتاب : مولانا محمد اسحق ملتانی۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

علم کا بدصورت عاشق :

علم کا بدصورت عاشق :

اصل نام عمرو بن محبوب تھا ، ۱۶۰ ہجری میں پیدا ہوئے اور جاحظ کے لقب سے معروف ہوئے ، عربی میں جاحظ اُسے کہتے ہیں جس کی آنکھوں کے ڈھیلے اُبھرے ہوں ۔ اوائل میں اس لقب کو ناپسند کرتے تھے ، رفتہ رفتہ خاموش ہو گئے ۔ شاید ہی کسی کی شکل کا یوں مذاق اڑایا گیا ہو ، کسی نے انہیں شیطان سے تشبیہ دی ہے اور کسی شاعر نے تو یونہی بھی کہا ہے : اگر خنزیر دوبارہ مسخ کر دیا جائے پھر بھی جاحظ سے کم ہی بدصورت ہوگا ۔ بادشاہ متوکل نے انہیں اپنے بچوں کا استاد مقرر کرنا چاہا ، شکل دیکھی تو انکار کر دیا ۔ حالانکہ معتزلی فکر سے وابستہ تھے ، اس کے باوجود عربی ادب کے امام گردانے جاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے : جاحظ نے جس کتاب کو پکڑ لیا اسے مکمل پڑھنے تک نیچے نہیں رکھا ۔ اکثر کتابوں کی دکانیں کرائے پر لے کر رات رات بھر پڑھتے رہتے تھے ۔ آخری عمر میں کافی بیماریوں کا شکار ہوئے ، آدھا جسم مفلوج ہو گیا ، یونہی پڑھنے میں مصروف تھے کہ ارد گرد پڑی کتابیں ان پر آگریں اور یوں علم کا بدصورت عاشق کتابوں کے قبرستان میں دفن ہو گیا ۔ (علی سنان)