شیطانی مشاغل

علامہ بدر الدین بن شبلی اپنی مشہور کتاب "آکام المرجان فی احکام الجان" میں نقل کرتے ہیں کہ شیطان لعین کے انسان کو نقصان پہنچانے کے ۶ درجات ہیں: (۱) پہلے مرحلہ میں وہ انسان کو کفر وشرک میں ملوث کرنے پر محنت کرتا ہے، اگر اس میں اُسے کامیابی مل جائے تو پھر اس آدمی پر اُسے مزید کسی محنت کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، کیوں کہ کفر و شرک سے بڑھ کر کوئی نقصان کی بات نہیں ہے۔ (۲) اگر آدمی (بفضل خداوندی) کفر و شرک پر راضی نہ ہو، تو دوسرے مرحلہ میں شیطان لعین اُسے بدعات میں مبتلا کر دیتا ہے۔ حضرت سفیان ثوری رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شیطان کو فسق و فجور اور معصیت کے مقابلہ میں بدعت زیادہ پسند ہے؛ اس لئے کہ دیگر گناہوں سے تو آدمی کو توبہ کی توفیق ہو جاتی ہے، مگر بدعتی کو توبہ کی توفیق نہیں ہوتی (اس لئے کہ وہ بدعت کو ثواب سمجھ کر انجام دیتا ہے تو اس سے توبہ کا خیال بھی نہیں آتا ) (۳) اگر آدمی بدعت سے بھی محفوظ رہے تو تیسرے مرحلہ میں اسے شیطان فسق و فجور اور بڑے بڑے گناہوں میں ملوث کرنے کی کوشش کرتا ہے ( مثلا بدکاری قتل، جھوٹ یا تکبر، حسد و غیره) (۴) اگر آدمی بڑے گناہوں سے بھی بچ جائے تو شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم از کم آدمی کو صغیرہ گناہوں کا ہی عادی بنادے؛ کیوں کہ یہ چھوٹے چھوٹے گناہ کبھی اتنی مقدار میں جمع ہو جاتے ہیں کہ وہ انہی کی وجہ سے مستحق سزا بن جاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ” تم لوگ حقیر سمجھے جانے والے گناہوں سے بچتے رہو؛ اس لئے کہ اُن کی مثال ایسی ہے جیسے کچھ لوگ کسی جنگل میں پڑاؤ ڈالیں اور ہر آدمی ایک ایک لکڑی ایندھن لائے ؛ تا آں کہ ان کے ذریعہ بڑا الاؤ جلا کر کھانا پکایا اور کھایا جائے ، تو یہی حال چھوٹے گناہوں کا ہے کہ وہ جمع ہوتے ہوتے بڑی تباہی کا سبب بن جاتے ہیں ۔ (رواہ احمد ، الترغیب والترہیب مکمل رقم : ۳۷۶۰ بیت الافکار ) (۵) اور جب شیطان کا مذکورہ کاموں میں سے کسی مرحلہ میں بھی بس نہیں چلتا تو اس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو ایسے مباح کاموں میں لگادے جن میں کسی ثواب کی امید نہیں ہوتی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس وقت میں انسان نیکیاں کر کے عظیم ثواب کا مستحق بن سکتا ہے، وہ وقت بلا کسی نفع کے گذر کر ضائع ہو جاتا ہے۔ (۶) اگر آدمی مذکورہ بالا ہر مرحلہ پر شیطان کے دام فریب میں آنے سے بچ جائے ،تو آخری مرحلہ میں شیطان انسان کو افضل اور زیادہ نفع بخش کام سے ہٹا کر معمولی اور کم نفع بخش کام میں لگانے کی کوشش کرتا ہے؛ تاکہ جہاں تک ہو سکے انسان کو فضیلت کے ثواب سے محروم کر سکے۔ (آکام المرجان فی احکام الجان ۱۲۶ - ۱۲۷) معلوم ہوا کہ شیطان انسان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع بھی ضائع کرنا نہیں چاہتا، افسوس ہے کہ ایسے بدترین دشمن سے آج ہم غافل ہی نہیں ؛ بلکہ اس کے پکے دوست بنے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے دین دار بھی کسی نہ کسی مرحلہ پر شیطان کے فریب میں مبتلا نظر آتے ہیں، اور انھیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہمارے دشمن نے ہمارے ساتھ دشمنی کے کیا گل کھلا رکھے ہیں۔(رحمن کے خاص بندے/ ص:۳۶۰-۳۶۱)

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

سی سکورٹ: دماغ کھانے والا سمندری جانور

سی سکورٹ: دماغ کھانے والا سمندری جانور

جون 06، 2025 'جاؤ، میرا دماغ مت کھاؤ'۔ شاید ہی ایسا کوئی فرد ہو جس نے یہ جملہ نہ سنا ہو- ہماری زبان میں 'دماغ کھانا' تو محض محاورے کے طور پر استعمال ہوتا ہے، لیکن سمندر میں ایک نوع ایسی بھی ہے جو واقعی اپنا دماغ کھا جاتی ہے- اس نوع کو 'سی سکورٹ' (Sea squirt) کہا جاتا ہے- سی سکورٹس کو کسی زمانے میں سمندری پودے سمجھا جاتا تھا کیونکہ یہ سمندر کی تہہ میں ایک ہی جگہ نصب ہوتے ہیں اور پانی کو فلٹر کر کے اس میں سے نیوٹرینٹس حاصل کرتے ہیں- لیکن جب سائنس دانوں نے ان 'پودوں' کے مکمل لائف سائیکل کو سٹڈی کیا تو یہ معلوم ہوا کہ یہ پودے نہیں جانور ہیں جو جب لاروا کی صورت میں ہوتے ہیں تو مچھلی نما ٹیڈپولز کی شکل میں گھومتے پھرتے ہیں- ان کے جسم میں وہ تمام بنیادی سٹرکچرز ہیں جو ریڑھی کی ہڈی والے جانوروں میں ہوتے ہیں مثلاً دماغ، حرام مغز، خون کے دوران کا نظام، ریڑھ کی ہڈی، نظام انہضام، مقعد کا سوراخ اور جنسی اعضاء موجود ہوتے ہیں- لیکن بلوغت کے وقت یہ ٹیڈپولز سمندر کی تہہ میں اپنے پاؤں گاڑ کر اپنے آپ کو ایک جگہ مقید کر لیتے ہیں- اس کے بعد ان کے جسم کے وہ تمام اعضاء ضائع ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو ان کی باقی ماندہ زندگی کے لیے اہم نہیں ہیں- جانوروں کی دماغ کی ضرورت زیادہ تر اپنی حرکات و سکنات کو کنٹرول کرنے لیے ہوتی ہے- جو جانور تمام عمر ایک ہی جگہ نصب ہوں، حرکت نہ کر سکیں انہیں دماغ کی ضرورت نہیں ہوتی- پودوں میں دماغ اور اعصابی نظام اسی لیے ارتقاء پذیر نہیں ہوا کہ ان پر دماغ اور اعصابی نظام کی ضرورت نہیں ہے- دماغ میں نیورونز کی پراسیسنگ کے لیے بہت سی انرجی درکار ہوتی ہے- جو عضو بہت زیادہ انرجی لیتا ہو لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہو وہ عضو ارتقائی پراسیس میں بہت جلد ضائع ہو جاتا ہے بالغ سی سکورٹ میں نر اور مادہ نہیں ہوتے بلکہ ہر سی سکورٹ بیک وقت نر بھی ہوتا ہے اور مادہ بھی- گویا ہر سی سکورٹ سپرم بھی بناتا ہے اور بیضے بھی- یہ بیضے اور سپرم پانی میں خارج ہوتے ہیں جہاں بیضے سپرم سے فرٹیلائز ہوتے ہیں- فرٹیلائزڈ بیضے پانی میں ادھر ادھر بکھر جاتے ہیں جہاں محض ایک دو دن میں ہی ان سے ٹیڈ پولز بن کر نکلتے ہیں جو تیرنے لگتے ہیں، اور یوں ان کا لائف سائیکل چلتا رہتا ہے اس گرافک میں آپ بالغ سی سکورٹ دیکھ سکتے ہیں جو سمندر کی تہہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی ایک سی سکورٹ کے ٹیڈپول کا باڈی پلان بھی دیکھ سکتے ہیں جس میں وہ تمام سٹرکچرز دکھائے گئے ہیں جو ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں میں ہوتے ہیں