ایک شاہین اور بادشاہ کی سبق آموز کہانی

ایک بادشاہ کو کسی نے دو شاہین کے بچّے تحفے میں پیش کئے۔ بادشاہ نے دونوں کو اپنی شاہینوں کی تربیت کرنے والوں کے سپرد کر دیا تاکہ وہ اُن دونوں کو تربیت دیں کہ وہ شکار پر لے جائیں جا سکیں۔ ایک مہینے کے بعد وہ ملازم بادشاہ کے پاس حاضر ہوا اور کہا کہ ایک شاہین تو مکمّل تربیت یافتہ ہو چکا ہے اور شکار کے لئے بالکل تیّار ہے لیکن دوسرے کے ساتہ پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے کہ پہلے دن سے ایک ٹہنی پر بیٹہا ہے اور کوششوں کے باوجود ہلنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اس بات سے بادشاہ کا تجسّس بڑہا اور اس نے درباری حکیموں اور جانوروں اور پرندوں کے ماہرین سے کہا کہ پتہ لگائیں آخر وجہ کیا ہے؟ وہ بھی کوشش کر کے دیکہھ چکے لیکن کوئی نتیجہ معلوم نہ کر سکے۔ پھر بادشاہ نے پورے ملک میں منادی کروا دی کہ جو کوئی بھی اِس شاہین بچے کو قابلِ پرواز بنائے گا، بادشاہ سے منہ مانگا انعام پائے گا۔ اگلے دن بادشاہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جو شاہین پرواز کرنے پر آمادہ ہی نہیں تھا، شاہی باغ میں چاروں طرف اُڑ رہا ہے۔ بادشاہ نے فوراً حکم دیا کہ اُس شخص کو پیش کیا جائے جس نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ بادشاہ کے کارندے ایک دیہاتی کو لے کر بادشاہ کے پاس لائے کہ یہ کمال اِس شخص کا ہے۔ بادشاہ نے اُس شخص سے پوچہا؛ “تم آخر کس طرح وہ کام کر گئے جو میرے دربار کے ماہر حکیم اور پرندوں کو سُدھانے والے نہ کر سکے، کیا تمہارے پاس کوئی جادو ہے؟” وہ شخص گویا ہوا؛ “بادشاہ سلامت، میں نے صرف اِتنا کیا کہ جس ٹہنی پر یہ بیٹھا ہوا تھا وہ کاٹ دی اور زمین کی طرف گرتے وقت جبلّی طور پر اِس کے پر کُھل کر پھڑپھڑائے اور اسے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ اس میں طاقتِ پرواز ہے۔” بعض دفعہ ہمیں بھی اپنی طاقت کا اندازہ کچھ ہونے سے ہوتا ہے۔۔ اس لیے ازمائش سے ڈرنا نہیں بلکہ مقابلہ کرنا چاہیے۔۔۔ ✅♻️اردو سچی کہانیاں ♻️✅

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

یہ سب دین کے شعبے ہیں

یہ سب دین کے شعبے ہیں

لیسٹر برطانیہ میں علماء کرام کی محفل میں ایک دفعہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئی صاحب رح نے فرمایا کہ فرض کرو انڈیا کے کسی گاؤں میں کسی بھاری جسم والے شخص کا انتقال ہوگیا جون جولائی کی گرمی ہو قبرستان کئی کلومیٹر کے فاصلے پر ہو اور جنازہ اٹھانے والے صرف چار آدمی ہوں راستے میں ایک مسافر شخص ملا اس نے اپنا سامان ایک جانب رکھا اور جنازے کو کندھوں پر اٹھانے والوں کے ساتھ شامل ہوگیا۔ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رح نے علماء سے پوچھا ان چار آدمیوں کو اس مسافر شخص کے آنے سے خوشی ہوگی یا تکلیف؟ سب علماء کرام نے کہا خوشی ہوگی۔حضرت مولانا نے مزید فرمایا کہ یہ پانچوں آدمی تھوڑا آگے بڑھے تو ایک اور مسافر نظر آیا اس نے بھی اپنا سامان ایک سائیڈ پر رکھا اور ان پانچوں آدمیوں کے ساتھ جنازے کو کندھا دینے کے لئے شریک ہوگیا حضرت رح نے پھر علماء کرام سے پوچھا بتاؤ کہ اس چھٹے آدمی کے آنے سے پہلے پانچ آدمی خوشی محسوس کریں گے یا تکلیف؟ سب نے کہا خوشی۔تو پھر حضرت رح نے فرمایا کہ اس وقت ہم سب بھی دین کی ذمہ داری کندھوں پر اٹھا کر چل رہے ہیں دین کی خدمت کر رہے ہیں جب یہ بات ہے تو ہمیں ایک دوسرے کے کام کو دیکھ کر خوش ہونا چاہئے اس لئے کہ ہم سب کا مقصد ایک ہے۔تدریس تصنیف تبلیغ جھاد سیاست تصوف درس قرآن ودرس حدیث یہ سب دین کے شعبے ہیں اگر ہم سب ایک دوسرے کے رفیق ہوتے تو دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا مگر شیطان ہمیں رفیق بننے نہیں دیتا ہمیشہ ہمیں ایک دوسرے سے متنفر کرتا رہتا ہے سیرت کا ایک پہلو اتفاق بھی ہے جو نظر انداز ہورہا ہے۔