اللہ والوں کی صحبت کا اثر __؟؟

حضرت مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ایک مجلس میں ارشاد فرمایا کہ : ایک سال ہم حج کے لئے گئے وہاں علماء کے گروپ میں ایک ریٹائرڈ فوجی افسر بھی تھا تہجد کے وقت وہ فوجی افسر ہم سب سے پہلے اٹھ کر بیت الله شریف چلا جاتا اور اس وقت طواف کرتا تھا ۔ مولانا فرماتے ہیں : میں حیران ہوتا کہ وہ ایک عام آدمی ہے اور میں شیخ الحدیث, دیوبند کا فاضل ، علامہ انور شاہ کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ جیسے محدث کا شاگرد استاذ العلماء ہوں مگر یہ عام سا مسلمان وہ بھی فوجی افسر ریٹائرڈ جو مجھ سے بڑا عابد و زاہد ہے۔ مولانا بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : میں نے ایک دفعہ ارادہ کیا کہ اب میں اس سے پہلے تہجد کے لئے اٹھا کروں گا سو جب میں رات کو اٹھا تو یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ وہ اپنے بستر میں سویا ہوا ہے میں بڑا خوش ہوا کہ شکر ہے آج میں عبادت گزار عام سے مسلمان پر فوقیت لے گیا ، حمام سے وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر جب میں کمرے میں آیا تو دیکھا وہ ریٹائرڈ فوجی افسر میرے لئے چائے کا کپ لے کر کھڑا ہے ۔ میں حیران ہوا کہ یہ بندہ تو ابھی بستر میں لیٹا ہوا تھا یہ اتنی جلدی باہر سے چائے لے کر بھی آ گیا ہے مگر جب بستر پر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ اس کے بستر میں کوئی سو رہا ہے, میں نے پوچھا : میاں آپ انسان ہو یا جن ؟ یہ آپ کے بستر میں آپ نہیں تو یہ کون ہے؟ اس نے ہنس کر کہا : مولانا ! میں انسان ہی ہوں، میں جب تہجد سے ذرا پہلے حرم شریف گیا تو میں نے وہاں ایک ناواقف حاجی صاحب کو بخار میں مبتلا دیکھا، مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اسے اپنی قیام گاہ پر یہاں لے آیا اس کو اپنے بستر میں سلا کر واپس حرم شریف چلا گیا تھا۔ سو بستر میں یہ میں نہیں بلکہ بیمار حاجی صاحب ہیں ۔ حضرت بنوری رحمہ اللہ نے حیرت زدہ ہو کر اس سے پوچھا کہ میاں آپ کون ہو جس نے یعنی ایک ریٹائرڈ فوجی نے مجھ عالم اور شیخ الحدیث کو, دیوبند کے فاضل کو استاذ العلماء کو, بہت بڑے مدرسے کے مہتمم کو, علماء کے گروپ لیڈر کو زہد و تقویٰ میں پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ آج میں نے ارادہ کیا تھا کہ آج کے بعد آپ سے پہلے اٹھوں گا اور آپ سے پہلے حرم جایا کروں گا لیکن میں آپ کا مقابلہ نہ کرسکا۔ سچ سچ بتا دیں کہ آپ ہیں کون ؟ اس فوجی افسر نے جواب دیا کہ : میں شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کا مرید ہوں. مولانا بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے اپنے آپ پر افسوس کیا کہ قطب الاقطاب مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سے نسبت کی وجہ سے عام سے ایک مسلمان کو اللہ کے ہاں کتنا خاص مقام حاصل ہے ۔ اس واقعہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ اللہ والوں کی صحبت سے اتنا بلند مقام ملتا ہے کہ اگر مرید عام سا مسلمان بھی ہو تو وہ عمل کے لحاظ سے بڑے بڑے اہل علم سے آگے نکل جاتا ہے۔ دعا ہے اللہ تعالٰی ہمیں بھی نیک لوگوں کی قدر کرنے اور ان کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے۔ آمین.

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

مزاح مزاح میں نصیحت

مزاح مزاح میں نصیحت

شاگرد غور سے سن رہا تھا۔ استاد نے پوچھا کہ اگر میں تمہں ایک سیب، اور ایک سیب اور ایک سیب دوں، تو تمہارے پاس کتنے سیب ہو جائیں گے؟ شاگرد نے بغیر کسی تامل کے جواب دیا: ۴- استاد کو لگا کہ شائد شاگرد صحیح سے سوال سمجھ نہیں پایا۔ استاد نے اِطمینان سے دوبارہ پوچھا۔۔۔۔ "دیکھو اگر میں تمہیں ایک سیب، اور ایک سیب اور ایک سیب دوں تو تمہارے پاس کل کتنے سیب ہو جائیں گے؟" شاگرد سوچنے لگا، اور کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا: ۴- اب استاد کچھ حیران ہوا، اور اسےغصہ بھی آٰیا، مگر اس نے دوبارہ سوال کیا۔اب کی بار شاگرد نے استاد کے چہرے پر پھیلی مایوسی دیکھتے ہوئے، کافی سوچ کر جواب دیا، اور کہا "۴ سیب"۔ دفتاً استاد کو یاد آیا کہ شاگرد کو لیچی پسند ہے، ہو سکتا ہے اسے سیب پسند نہ ہوں، اور اس وجہ سے وہ سوال پر فوکس نہ کر پا رہا ہو۔ لہٰذا استاد نے پوچھا :اچھا بتاؤ اگر میں تمہیں ایک لیچی، اور ایک لیچی اور ایک لیچی دوں تو تمہارے پاس کُل کتنی ہوں گی؟ شاگرد نے سوچ کر جواب دیا، اور سوالیہ انداز میں کہا: ۳؟؟ بالکل ٹھیک، استاد نے خوش ہو کر کہا، اور پھر پوچھا، کہ بتاؤ کہ اگر میں تمہیں ایک سیب، اور ایک سیب اور ایک سیب دوں تو تمہارے پاس کُل کتنے سیب ہوں گے؟ "۴" شاگرد نے جواب دیا۔ اب استاد کو بہت غصہ آیا، اس نے پہلے تو شاگرد کو ڈانٹا اور پھر غصے میں پوچھا: "کیسے؟ کیسے ہوں گے 4 سیب؟؟" *شاگرد نے معصومیت سے جواب دیا:::::* *"کیونکہ ایک سیب میرے بیگ میں پڑا ہوا ہے"* ۔ *لہٰذا۔۔۔۔غصہ کرنے سے بہتر ہے کہ انسان پہلے دوسروں کی رائے جان لے، ہو سکتا ہے وہ کسی اور پہلو سے معاملے کو دیکھ رہے ہوں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی رائے درست ہو۔* منقول۔