دُم کٹا لومڑ

ایک لومڑ کی دم پہ پتھر اَگرا، اور دم کٹ گئ۔ ایک دوسرے لومڑ نے جب اسے دیکھا تو پوچھا! یہ تمنے اپنی دم کیوں کاٹی؟ دم کٹا لومڑ بولا اس سے بڑی خوشی وفرحت محسوس ھوتی ھے۔ایسے لگتا ھے کہ جیسے ھواوں میں اڑ رھا ھوں۔واہ!! کیا تفریح ھے! بس گھیر گھار کر اس دوسرے لومڑ کو اسنے دم کاٹنے پر راضی کرہی لیا۔ اسنے جب یہ دم کٹائ کی مہم سرکرلی تو بجاے سکون کے شدید قسم کا درد محسوس ھونے لگا!! پوچھا میاں!! جھوٹ کیوں بولا مجھ سے؟ پہلا کہنے لگا جو ہوا سو ہوا! اب یہ درد کی داستان دوسرے لومڑوں کو سنائ تو انہوں نے دمیں نہیں کٹوانی اور ہم دو دم کٹوں کا مذاق بنتا رھےگا! بات سمجھ لگی تو یہ دونوں دم کٹے پوری برادری کو یہ خوش کن تجربہ کرنے کا کہتے رہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لومڑوں کی اکثریت دم کٹی ھوگئ۔ اب حالت یہ ھوگئ یہ جہاں کوئ دم والا لومڑ دکھلائ دیتا اسکا مذاق اڑایا جاتا! جب بھی فساد عام ہوکر پھیل جاتا ھے عوام نیکوکاروں کو انکی نیکی پہ طعنے دینے لگ جاتے ہیں اور احمق لوگ انکا مذاق اڑاتے ہیں۔ حضرت کعب سے روایت ہے کہ فرمایا لوگوں پہ ایسا زمانہ آئے گا کہ مومن کو اسکے ایمان پہ ایسے ہی عار دلائ جاوےگی جیسے کہ آجکل بدکار کو اسکی بدکاری پہ عار دلائ جاتی ھے۔یہاں تک کہ آدمی کو طنزا کہا جاےگا کہ واہ بھئ! تم تو بڑے ایمان دار فقیہ بندے ھو!! بگڑا ھوا معاشرہ جب نیکوکارون میں کوئ قابلِ اعتراض بات نہیں تلاش کرپاتا تو انکی بھترین خوبی پہ ہی انکو عار دلانے لگ جاتا ھے! لوط علیہ السلام کی قوم نے کیا نہی کہا تھا  نکال دو لوط کے گھر والون کو اپنی بستی سے!! یہ تو بھت نیک بنے پھرتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرہ کی حقیقت ہے کہ جس میں ہم جیتے ہیں منقول

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

حکیم اور حکمت

حکیم اور حکمت

چند دن پہلے دانت میں شدید درد تھا فورا ڈاکڑ کے پاس گیا پہلے تو پتہ چلا کہ لسٹ مکمل ہو چکی ہے اور ڈاکٹر اس سے زیادہ مریضوں کو چیک نہیں کرتا بڑی منت سماجت کے بعد مشکل سے آخر میں نمبر مل گیا ، ڈاکٹر نے چیک کیا اور پہلے تو دانت میں چند انجکشن لگائے پھر ایک پلاس کی طرح کی کوئی چیز ہاتھ میں لی، مختلف قسم کے آلات اور چیزوں کی مدد سے مسوڑوں اور دانت کے ساتھ پوری جنگ کرتا رہا اور میں درد کی شدت کی وجہ سے کھبی کرسی کو زور سے پکڑتا تو کھبی اوپر نیچے ہوتا ،آنکھوں میں پانی بھی جمع ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیوں یہ سب تحمل کر رہا ہوں ؟ کیوں اعتراض نہیں کر رہا ؟ کیوں ڈاکٹر کو چند گالیاں تحفے کے طور پر نہیں دے رہا ؟ کیوں ڈاکٹر کو تھپڑ نھیں مار رہا ؟ بلکہ بعد میں اس کا شکریہ بھی ادا کر رہا تھا اور پوچھ رہا تھا کہ دوبارہ کب آوں اوپر سے اس سارے کام کے ڈاکٹر کو پیسے بھی دیئے کچھ دیر تو سوچتا رہا _______ پھر اچانک مجھے اپنے آپ سے شرم اور خدا سے شرمندگی محسوس ہونے لگی جب میرے اندر سے آواز آئی کہ خان صاحب کیا خدا کو اس ڈاکٹر کے برابر ہی مانتے ہو۔۔۔۔۔؟ ڈاکٹر کو اعتراض نہیں کرتے کیونکہ پتہ ہے کہ اس سارے درد انجکشن ، پلاس اور دوسرے آلات اس تکلیف کا ایک فلسفہ و حکمت ہے اور آخر میں ہمارا اپنا ہی فائدہ ہے پس خدا تو خالق و مالک حکمت ہے حتی پہلے تو ڈاکٹر کو حکیم ہی کہتے تھے اور خدا تو سب سے بڑا حکیم ہے پس یاد رکھیں اسکے کام بھی حکمت سے خالی نہیں ، اگر کوئی درد ،مشکل یا امتحان ہماری طرف آئے تو خدا کی حکمت پر اعتماد کریں اس کا شکریہ ادا کریں اور پوچھیں خدایا دوبارہ ہماری باری کب ہے 💐💐 مجھے بھی درد کی حکمت اس وقت پتہ چلی جب کسی نے بتایا کہ کینسر کے لاعلاج ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسکا درد نھی ہوتا اور جب پتہ چلتا ہے تو اس وقت کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے انسان ڈاکٹر کے فہم و درک ، سند اور اس کے تجربہ پر ایمان رکھتا ہے ڈاکٹر کا جتنا تجربہ زیادہ اتنا یقین زیادہ باقاعدہ کلینک کے باہر لکھا ہوتا ہے تجربہ 20 سالہ، 40 سالہ، 60 سالہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ خدا کا تجربہ تو اربوں سالوں سے ہے بلکہ یوں کہوں تو بہتر ہے کہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ہاں یاد آیا کہ علامہ اقبال کو بھی تو حکیم الامت کہتے ہیں کیونکہ اس نے امت کے دردوں کا صحیح علاج بتایا تھا لیکن ہم لوگوں کو تو وقتی طور پر ڈسپرین یا بروفن چاہیے جو تھوڑی دیر کیلئے اس درد کو دور کر دے چاہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پورے بدن کو ہی خراب کیوں نا کر دے ،