مزاح مزاح میں نصیحت

شاگرد غور سے سن رہا تھا۔ استاد نے پوچھا کہ اگر میں تمہں ایک سیب، اور ایک سیب اور ایک سیب دوں، تو تمہارے پاس کتنے سیب ہو جائیں گے؟ شاگرد نے بغیر کسی تامل کے جواب دیا: ۴- استاد کو لگا کہ شائد شاگرد صحیح سے سوال سمجھ نہیں پایا۔ استاد نے اِطمینان سے دوبارہ پوچھا۔۔۔۔ "دیکھو اگر میں تمہیں ایک سیب، اور ایک سیب اور ایک سیب دوں تو تمہارے پاس کل کتنے سیب ہو جائیں گے؟" شاگرد سوچنے لگا، اور کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا: ۴- اب استاد کچھ حیران ہوا، اور اسےغصہ بھی آٰیا، مگر اس نے دوبارہ سوال کیا۔اب کی بار شاگرد نے استاد کے چہرے پر پھیلی مایوسی دیکھتے ہوئے، کافی سوچ کر جواب دیا، اور کہا "۴ سیب"۔ دفتاً استاد کو یاد آیا کہ شاگرد کو لیچی پسند ہے، ہو سکتا ہے اسے سیب پسند نہ ہوں، اور اس وجہ سے وہ سوال پر فوکس نہ کر پا رہا ہو۔ لہٰذا استاد نے پوچھا :اچھا بتاؤ اگر میں تمہیں ایک لیچی، اور ایک لیچی اور ایک لیچی دوں تو تمہارے پاس کُل کتنی ہوں گی؟ شاگرد نے سوچ کر جواب دیا، اور سوالیہ انداز میں کہا: ۳؟؟ بالکل ٹھیک، استاد نے خوش ہو کر کہا، اور پھر پوچھا، کہ بتاؤ کہ اگر میں تمہیں ایک سیب، اور ایک سیب اور ایک سیب دوں تو تمہارے پاس کُل کتنے سیب ہوں گے؟ "۴" شاگرد نے جواب دیا۔ اب استاد کو بہت غصہ آیا، اس نے پہلے تو شاگرد کو ڈانٹا اور پھر غصے میں پوچھا: "کیسے؟ کیسے ہوں گے 4 سیب؟؟" *شاگرد نے معصومیت سے جواب دیا:::::* *"کیونکہ ایک سیب میرے بیگ میں پڑا ہوا ہے"* ۔ *لہٰذا۔۔۔۔غصہ کرنے سے بہتر ہے کہ انسان پہلے دوسروں کی رائے جان لے، ہو سکتا ہے وہ کسی اور پہلو سے معاملے کو دیکھ رہے ہوں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی رائے درست ہو۔* منقول۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

دل اور دماغ کا باہمی ربط___!!!

دل اور دماغ کا باہمی ربط___!!!

دنیا دل اور دماغ کو ایک ہی خانہ میں رکھ دیتی ہے، دونوں کا سرا ایک دوسرے سے یوں ملادیتی ہے، جیسے ان میں کوئی بھی فرق نہ ہو اور نا کوئی امتیاز ہو یا پھر ایک انتہا یہ ہے؛ کہ دونوں کے درمیان اس قدر دوری پیدا کردیتی ہے، کہ جیسے دونوں کا وجود ہی ایک دوسرے سے دور رہنا اور متفرق رہنا ہو____ صحیح بات یہ ہے کہ دونوں ہی راستے انتہا پسندی کے ہیں، دل اور دماغ دونوں ایسے تار ہیں کہ جب تک وہ ایک دوسرے سے نہ ملیں کوئی چیز وجود میں نہیں آتی، میڈیکل سائنس بھی دونوں کو باہم رفیق تصور کرتی ہے، یہ بات الگ ہے کہ دونوں کا فکری امتیاز ہے، دونوں میں درد کا اور اپنائیت کا تعلق ہے، ایک سے کوئی کسی چیز کا ادراک کرتا ہے، تو دوسرے سے اس ادراک کا حسن و قبح جانتا ہے، ہمیشہ دل پر منحصر رہنا یا پھر ہمیشہ دماغ کو ہی اپنا رفیق ماننا مناسب نہیں ہے، اکثر و بیشتر اس رشتہ کو توڑ دیا جاتا ہے جو دونوں عناصر کے درمیان ہیں، یہی وجہ ہے کہ کئی دفعہ انتہاپسندی، تعصب اور کبھی بزدلی، بے دلی اور بے پروائی کا سامنا ہوتا ہے، جبکہ دونوں ایک ہنس مکھ اور ایک دوسرے کے معاون ہیں، مددگار ہیں، چنانچہ جس طرح دو متضاد وائر کو مناسب طور پر نہ ملایا جائے تو بلاسٹ ہوجاتا ہے، اسی طرح اگر دل و دماغ کے دونوں وائر بھی بہتر طریقے پر نہ ملائے جائیں تو تخریب کا ہی دروازہ کھلتا ہے، کہتے ہیں مغربی ممالک نے دماغ کا دروازہ کھولا تو ترقی پائی اور مشرقی ممالک نے دل کے درازے کھول کر ترقی پائی؛ اسی لئے دونوں ندی کے دو کنارے پر ہیں، کوئی میل ملاپ نہیں ہے، ایک دل کی دنیا آباد کرنے کو کہتا ہے، تو دوسرا مشینوں کو آباد کرنا چاہتا ہے؛ لیکن چونکہ دونوں الگ الگ ہیں اس لئے دونوں میں افتراق ہے، اختلاف اور بسااوقات انتشار بھی پایا جاتا ہے۔ اس دل اور دماغ کے رشتے کو جناب کلیم عاجز صاحب مرحوم نے بہت خوب سمجھا ہے اور سمجھایا ہے، وہ پڑھنے کے قابل ہے، آپ رقمطراز ہیں: "__ ہاں ایک بات عرض کروں گا_ لوگ دل کی باتوں کو بہت زیادہ دماغی باتوں سے آراستہ کر کے اور تہہ دار بنا کر پیش کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ میں دل اور دماغ کو علاحدہ علاحدہ کار فرما اور عامل نہیں مانتا۔ دونوں کا عمل متوازی ہے، اس لئے انہیں متوازن ہی رہنا چاہئے۔ اور یہ توازن فطری ہے۔ بغیر دونوں کے اشتراک عمل کے فن پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ میں " نکتہ چند بہ پیچیدہ بیانے" کا بالکل قائل نہیں ۔ میں دونوں میں کسی کو حاکم و محکوم، غالب و مغلوب نہیں سمجھتا۔ یہ ہنس مکھ ساتھی ہیں۔ ایک دوسرے کے فرمانبردار، ایک دوسرے کے یار، ایک دوسرے کے حال آشنا، رمز شناس و معاون و مددگار ہیں۔ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، شانہ سے شانہ ملائے، قدم بہ قدم چلتے ہیں۔ کوئی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش نہیں کرتا۔ میرے یہاں دونوں کی ہم آہنگی، ہم مزاجی مقدم ہے۔ میں نے چبا کر بھی بات نہیں کی ہے، دل کھول کر رکھ دیا ہے اور دل والوں کے سامنے رکھا ہے۔ دماغ والوں کے سامنے رکھا ہے۔اور یقین سے رکھا ہے۔ اعتماد سے رکھا ہے۔ اسی اعتماد سے جس اعتماد سے میر صاحب کہتے ہیں کہ: باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنئے گا کہتے کسی کو سنئے گا تو دیر تلک سر دھنئے گا (وہ جو شاعری کا سبب ہوا__:۱۷۵) ✍ محمد صابرحسین ندوی