
سنبھل جامع مسجد تنازعہ: جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ یوگی آدتیہ ناتھ کو پیش، شفافیت پر سوالات
اترپردیش کے سنبھل میں شاہی جامع مسجد کے سروے سے جنم لینے والے تنازعہ نے ایک بار پھر سیاسی و مذہبی حلقوں کو گرم کر دیا ہے۔ 24 نومبر 2024 کے پرتشدد واقعات کی تحقیقات کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو پیش کر دی، لیکن اس کی خفیہ نوعیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ واقعات کی تفصیلات سنبھل کے چندوسی قصبے میں واقع شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران 24 نومبر 2024 کو ہنگامہ پھوٹ پڑا، جس میں فائرنگ اور سنگ باری سے چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ مشتعل ہجوم نے کئی گاڑیوں کو نذر آتش کیا، اور پولیس نے درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا۔ یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب مقامی عدالت نے وشنو شنکر جین کی درخواست پر مسجد کے نیچے مبینہ مندر کے دعوے کی تحقیقات کے لیے سروے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے بعد میں سروے پر مبنی کسی بھی کارروائی پر روک لگا دی، لیکن سنبھل میں خوف کی فضا برقرار ہے۔ اترپردیش حکومت نے ریٹائرڈ ہائی کورٹ جج دیویندر کمار اروڑہ کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا، جس میں ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر امت موہن اور آئی پی ایس افسر اروند کمار جین شامل تھے۔ کمیشن کا مقصد تشدد کی وجوہات، ذمہ داروں کی شناخت، اور مستقبل میں ایسی صورتحال کی روک تھام کے لیے سفارشات تیار کرنا تھا۔ 28 اگست 2025 کو یہ رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کی گئی، لیکن اسے عوام یا میڈیا سے شیئر نہ کرنے پر تنقید ہو رہی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے ترجمان فخر الحسن چاند نے رپورٹ کی خفیہ نوعیت پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ بی جے پی حکومت اسے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ مولانا ساجد رشیدی نے رپورٹ کو جانب دار قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس میں ہندو آبادی کے 45 فیصد سے 15 فیصد تک کم ہونے کا ذکر ہے، جو ہجرت کی وجہ سے بتایا گیا، حالانکہ مقامی مندر کے پجاری نے تصدیق کی کہ ان کی منتقلی کام کی وجہ سے تھی، نہ کہ جبری طور پر۔ مسجد کمیٹی نے سروے کی جلد بازی پر سوال اٹھایا، کیونکہ عدالت نے ایڈووکیٹ کمشنر رمیش سنگھ راگھو کو 29 نومبر 2024 تک رپورٹ جمع کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن سروے اسی روز چند گھنٹوں میں کر لیا گیا۔ مسلم وکلاء نے عدالت پر الزام لگایا کہ انہیں اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے حال ہی میں مسجد کی بیرونی دیواروں پر رنگ و روغن اور مناسب روشنی کی اجازت دی، لیکن محکمہ آثار قدیمہ کے دلائل کو مسترد کرتے ہوئے پوچھا کہ اگر کوئی خلاف ورزی ہوئی تو فوری کارروائی کیوں نہ کی گئی؟ ردعمل اور خدشات سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ رپورٹ کی خفیہ پیشکش سے سنبھل میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے، کیونکہ عوام میں شفافیت کی کمی سے بداعتمادی پھیل رہی ہے۔ مسلم تنظیموں نے سپریم کورٹ سے 1991 کے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے، جو 15 اگست 1947 کی حیثیت کو برقرار رکھنے کی ضمانت دیتا ہے۔ بی جے پی رہنما اس تنازعہ کو ہندو شناخت سے جوڑتے ہیں، جبکہ اپوزیشن اسے سیاسی فائدے کے لیے استعمال ہونے والا ہتھکنڈہ قرار دیتی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے ماضی میں ایسی تنازعات کو اپنی حکومت کے ’امن و امان‘ کے دعوؤں سے جوڑا ہے، لیکن اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ اترپردیش میں جرائم کی شرح اب بھی بلند ہے۔ ’’شفافیت جمہوریت کی روح ہے۔ رپورٹ کو خفیہ رکھنا عوام کے اعتماد کو مجروح کرتا ہے۔‘‘ — فخر الحسن چاند حوالہ جات دی وائر اردو بی بی سی اردو، اردو وائس آف امریکہ, ساحل آن لائن، ہندوستان ایکسپریس، ایکس پوسٹ