قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا ۔ لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۔ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ(۴۴)(سورۃ الزمر)
کہو کہ: سفارش تو ساری کی ساری اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ اسی کے قبضے میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے، پھر اُسی کی طرف تمہیں لوٹایا جائے گا(آسان ترجمۃ القران)
عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ(بُخاری شریف : ۵۵۹۹)
نبی ﷺ كو حلواء(میٹھا) اور شہد پسند تھا ( پس انگور کا شیرہ دو تہائی جلا دیا جائے تو وہ حلواء بن گیا، اور پکائے بغیر تازه پیا جائے تو وہ شہد کے مانند ہے)(تحفۃ القاری)
مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ غیبت سے چنے کا آسان راستہ یہ ہے کہ دوسرے کا ذکر کرو ہی نہیں نہ اچھائی سے ذکر کرو اور نہ برائی سے ذکر کرو کیونکہ یہ شیطان بڑا خبیث ہے۔ اس لئے کہ جب تم کسی کا ذکر اچھائی سے کرو گے کہ فلاں شخص بڑا اچھا آدمی ہے۔ اس کے اندر یہ اچھائی ہے تو دماغ میں یہ بات رہے گی کہ میں اس کی غیبت تو نہیں کر رہا بلکہ اچھائی سے اس کا ذکر کر رہا ہوں لیکن پھر یہ ہو گا کہ اس کی اچھائیاں بیان کرتے کرتے شیطان کوئی جملہ در میان میں ایسا ڈال دے گا جس سے وہ اچھائی برائی میں تبدیل ہو جائے گی مثلاً وہ کہے گا کہ فلاں شخص ہے تو بڑا اچھا آدمی .. مگر اس کے اندر فلاں خرابی ہے یہ لفظ ”مگر “ آکر سارا کام خراب کر دے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ گفتگو کا رخ غیبت کی طرف منتقل ہو جائے گا اس لئے حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ دوسروں کا ذکر کرو ہی نہیں۔ نہ اچھائی سے نہ برائی سے اور اگر کسی کا ذکر اچھائی سے کر رہے ہو تو ذرا کمر کس کے بیٹھو تاکہ شیطان غلط راستے پر نہ ڈال دے۔
غیر مسلموں کا کھانا اگر حلال اور پاک وصاف ہونے کا یقین ہو ، اور کسی موقع پر اُسے کھانا پڑ جائے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس کی مستقل عادت بنا لینا جو دوستانہ تعلقات کو جنم دیتا ہے جائز نہیں ، اس سے بچنا چاہیے۔(اہم مسائل/ج:۶/ص:۲۷۸)