New Kalam 2023 || Ye Khatam e Bukhari Ki Purnoor Mehfil || Molana Asadullah Khaksar

Naats

آیۃ القران

وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(۶۴)(سورۃ العنکبوت)

اور یہ دنیوی زندگی کھیل کود کے سوا کچھ بھی نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ دار آخرت ہی اصل زندگی ہے، اگر یہ لوگ جانتے ہوتے۔(۶۴)(آسان ترجمۃ القران) یعنی جس طرح کھیل کود میں کچھ دیر تو مزہ آتا ہے، مگر وہ کوئی پائیدار چیز نہیں ہے، ذرا دیر گذرنے کے بعد سارا تماشا ختم ہوجاتا ہے، اسی طرح دنیا کی لذتیں بھی ناپائیدار ہیں، اور کچھ ہی عرصے میں سب ختم ہوجائیں گی۔ اس کے برخلاف آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لیے ہے، اس لیے اس کی لذتیں اور نعمتیں سدا بہار ہیں۔ اس لیے اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے۔(آسان ترجمۃ القران)

حدیث الرسول ﷺ

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ دُعِيَ فَلَمْ يُجِبْ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَمَن دَخَل٘ عَلى غَيْرِ دَعْوَةٍ دَخَلَ سَارِقًا وَخَرَجَ مُغِيرًا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد(مشکوۃ المصابیح:۳۲۲۲)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ جس شخص کی دعوت کی جائے اور وہ قبول نہ کرے تو اس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ، اور جو شخص بن بلائے دعوت میں شریک ہوا تو وہ چور کی شکل میں داخل ہوا اور ڈاکو کی صورت میں باہر نکلا ۔ (ابوداؤد)(الرفيق الفصیح/ج:۱۶/ص:۳۷۲)

عبرت کے نشانات

یہ عالی شان محلات اور مکانات میں زندگی گزارنے والا انسان آئندہ ایک ایسے گھر (قبر) کی طرف جارہا ہوتا ہے جہاں یہ لیٹے گا تو اُٹھ نہیں سکے گا ـ اس کی قبر اس کے لیے اسی صورت میں جنت کا باغ بنے گی جب اس نے قبر کی تیاری کی ہوگی ـ قبر ہمارے لیے عبرت کا ایک مقام ہے ـ ایک عارف کہا کرتے تھے : "اے دوست! قبر پر غور کرو اور دیکھو کہ کیسے کیسے حسینوں کی مٹی خراب ہو رہی ہے ـ " کتنے بے داغ چہرے تھے،ناز و نعمت میں پلے لوگ تھے، جو دنیا میں اپنی مَن مرضی کی زندگی گزارتے تھے، عیش و آرام کی زندگی رہتے تھے، محفل میں زعفرانی مسکراہٹیں بکھیرتے تھے اور لوگ ان کے چہروں کو دیکھتے رہ جاتے تھے،لیکن موت نے ان کو مٹی میں ملادیا،کیڑوں نے ان کے گوشت کو کھا لیا، آج ان کی ہڈیاں بوسیدہ پڑی ہوئی ہیں،آج اگر ان کی قبر کھود کر دیکھی جائے تو وہ عبرت کے نشانات بنے ہوئے ہیں ـ کہاں گئے ان کے زرق برق لباس جو وہ پہنا کرتے تھے؟کہاں گئیں وہ چیزیں جن کو صاف کرکے سمیٹ کر وہ رکھا کرتے تھے؟ کہاں گئے ان کے وہ معاملات جن کی خاطر وہ جان دیا کرتے تھے؟ وہ کاروبار نہ رہا،وہ مال نہ رہا،عزیز و اقارب نہ رہے،سب چیزیں یہیں چھوڑ کر یہ اکیلے اس دنیا سے اگلے سفر پر روانہ ہوگئے ـ ایک نوجوان کسی کو گھر کے حالات اور والد کی بیماری کے متعلق بتاتے ہوئے کہنے لگا : "میرے والد صاحب مرتے مرتے بچے ہیں" کسی بزرگ نے یہ بات سنی تو فرمایا: "عزیزم! تیرے والد صاحب بچتے بچتے مریں گے" میرے دوستو! ہفتے میں ایک دن قبرستان جایا کرو ـ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان وہاں جاکر اس "شہر خاموشاں" سے عبرت حاصل کرتا ہے ـ

اہم مسئلہ

بلاضرورت مسجد میں کھانا پینا اور سونا مکروہ ہے، البتہ مسافر اور معتکف کیلئے مسجد میں کھانے، پینے اور سونے کی گنجائش ہے، اسی طرح کسی شخص کو ایسی دینی ضرورت لاحق ہو ، جو مسجد میں سوئے بغیر حاصل نہ ہوسکتی ہو، مثلاً نماز با جماعت کی پابندی نصیب ہوتی ہو، یا تہجد کی توفیق ہوتی ہو، یا مسجد کی حفاظت مقصود ہو، تو اس کیلئے بھی مسجد میں سونے کی اجازت و گنجائش ہے، بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین بھی دینی ضرورت کیلئے مسجد میں سوتے تھے۔(اہم مسائل/ج:۳/ص:۲۴۶)

//