حضرت ابن عمر رضي اللہ عنہ کا ایک واقعہ

حضرت عبداللہ ابن عمر یا ایک دفعہ سفر پر جا رہے تھے، غالبا حج یا عمرے کا سفر تھا، صاحب حیثیت عربوں کی عادت کے مطابق آپ سفر پر جاتے ہوئے سواری کے اونٹ کے ساتھ ایک خچر نما گدھا بھی لے گئے (عربوں کے گدھے ہمارے ہاں کے گدھوں کی طرح نہیں ہوتے بلکہ ہمارے ہاں کے خچروں کی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں ) ۔ ہوتا یہ تھا کہ دوران سفر جب اونٹ کی سواری سے اکتا جاتے تو کچھ دیر کے لئے گدھے پر سوار ہو جاتے۔ اس پر پالان بھی تھا راستہ میں ایک غیر معروف مقام پر ایک دیہاتی بدو سامنے آیا ، آپ فوراً اترے اور بڑی عزت سے پیش آئے پھر اپنی پگڑی اٹھائی اور دیہاتی کے سر پر رکھی اور وہ گدھا اس کے سپرد کر دیا، حضرت ابن عمرؓ کے رفقاء اور شاگردوں نے کہا کہ آپ نے ایک دیہاتی کو پوری سواری دے دی ، عمامہ دے دیا ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ صاحب میرے والد کے دوست ہیں اور پھر وہ حدیث پڑھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ والد کے ساتھ ایک نیکی یہ بھی ہے کہ ان کے دوستوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اور اچھے برتاؤ کا کم از کم درجہ یہ ہے کہ اس کے لئے دعا کرے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب انسان دوسرے کے لئے دعا کرتا ہے تو اللہ کی طرف سے فرشتہ وہاں کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے : ” ولک مثل ذالک“۔ ہاں تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو۔ معصوم فرشتہ جب دعا کرے تو اس کی قبولیت یقینی ہے۔ (کتاب: ماہنامہ فلاح دارین کراچی(نومبر) صفحہ نمبر: ۲۱ انتخاب: اسلامک ٹیوب پرو ایپ)

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

جنرل اور چرواہا __!!

جنرل اور چرواہا __!!

یہ 1917 کی بات ہے عراق کے پہاڑوں میں برطانوی جنرل سٹانلی ماودے کا ایک چرواہے سے سامنا ہوا ۔ جنرل چرواہے کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے مترجم سے کہا ان سے کہہ دو کہ جنرل تمہیں ایک پاونڈ دے گا بدلے میں تمہیں اپنے کتے کو ذبح کرنا ہوگا۔ کتا چرواہے کے لئے بہت اہم ہوتا ہے یہ اس کی بکریاں چراتا ہے، دور گئے ریوڑ کو واپس لاتا ہے، درندوں کے حملوں سے ریوڑ کی حفاظت کرتا ہے، لیکن پاونڈ کی مالیت تو آدھا ریوڑ سے بھی زیادہ بنتی ہے چرواہے نے یہ سوچا اس کے چہرے پر لالچی مسکراہٹ پھیل گئی، اس نے کتا پکڑ لایا اور جنرل کے قدموں میں ذبح کر دیا۔ جنرل نے چرواہے سے کہا اگر تم اس کی کھال بھی اتار دو تو میں تمہیں ایک اور پاونڈ دینے کو تیار ہوں، چرواہے نے خوشی خوشی کتے کی کھال بھی اتار دی، جنرل نے کہا میں مزید ایک اور پاونڈ دینے کے لئے تیار ہوں اگر تم اس کی بوٹیاں بھی بنا دو چرواہے نے فوری یہ آفر بھی قبول کرلی جنرل چرواہے کو تین پاونڈ دے کر چلتا بنا۔ جنرل چند قدم آگے گئے تھے کہ اسے پیچھے سے چرواہے کی آواز سنائی دی وہ پیچھے پیچھے آ رہا تھا اور کہہ رہا تھا جنرل اگر میں کتے کا گوشت کھا لوں آپ مجھے ایک اور پاونڈ دیں گے؟ جنرل نے انکار میں سر ہلایا کہ میں صرف تمہاری نفسیات اور اوقات دیکھنا چاہتا تھا، تم نے صرف تین پاونڈ کے لئے اپنے محافظ اور دوست کو ذبح کر دیا اس کی کھال اتار دی، اس کے ٹکڑے کیا اور چوتھے پاونڈ کے لئے اسے کھانے کے لئے بھی تیار ہو، اور یہی چیز مجھے یہاں چاہئے۔ پھر جنرل اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوئے کہ اس قوم کے لوگوں کی سوچیں یہ ہیں لہذا تمہیں ان سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج یہی حال مسلم ملکوں اور معاشروں کا ہے، اپنی چھوٹی سی مصلحت اور ضرورت کے لئے اپنی سب سے قیمتی اور اہم چیز کا سودا کر دیتے ہیں۔ اور یہ وہ ہتھیار ہے جسے ہر استعمار، ہر قابض، ہر شاطر دشمن ہمارے خلاف استعمال کرتا رہا ہے، اسی کے ذریعے اس نے حکومت کی ہے اور اسی کے ذریعے ملکوں کو لوٹا ہے۔ آج ہمارے درمیان ہمارے ملکوں میں کتنے ہی ایسے 'چرواہے' ہیں جو نہ صرف کتے کا گوشت کھانے کے لئے تیار ہیں بلکہ اپنے ہم وطن بھائیوں کا گوشت کھا رہے ہیں اور چند ٹکوں کے عوض اپنا وطن بیچ رہے ہیں۔ ڈاکٹر علی الوردی کی عربی کتاب " لمحات اجتماعية من تاريخ العراق " سے ماخوذ