خواص میں نرم مزاجی کی ضرورت واہمیت

اہل علم اور خواص کے طبقہ میں نرم مزاجی اور نرم خوئی از حد ضروری ہے۔ سخت لب ولہجہ میں بات کرنا اور کسی بات پر ناراض ہونا اگر تربیت اور اصلاح کے جذبہ سے ہو تو ظاہر ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اگر اس کا منشا محض اپنے غصہ کی تسکین اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنا ہو تو یہ علماء اور خواص کی شان کے خلاف ہے۔ عامی آدمی سے اگر ایسی بات صادر ہو جائے جو خواص کی طبیعت اور مزاج کے خلاف ہو تو فوراً مشتعل نہیں ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ عام طور پر ایک عامی اور جاہل آدمی کا انداز گفتگو عامیانہ ہوتا ہے، اس کو علماء اور خواص کے ساتھ گفتگو کے آداب معلوم نہیں ہوتے ہیں ، اب اگر خواص بھی اس سے الجھ جائیں تو وہ عامی آدمی جو ایک عالم دین سے رجوع ہوا تھا، خواہ اس کا مقصد کچھ بھی رہا ہو، دنیوی مقصد ہو یا اخروی، جب عالم اس سے غیر سنجیدہ گفتگو کرے گا، اور اس کی جانب سے ناگوار بات پیش آنے پر درشت اور کرخت لہجہ اختیار کرے گا تو ظاہر ہے کہ وہ عامی آدمی اس سے دور اور نفور ہو جائے گا، اور اس عالم دین سے دوبارہ ملاقات کرنے اور اس کی بافیض صحبت سے فائدہ اٹھانے سے کترائے گا ، اس کے برخلاف اگر عالم دین اس کی جانب سے پیش آنے والی خلاف طبیعت بات پر صبر وتحمل سے کام لے، اور اس کی غیر سنجیدہ گفتگو کے جواب میں سنجیدہ اور نرم انداز میں گفتگو کرے تو ایک تو اس کو علماء اور خواص کی جانب سے اچھا اور مثبت پیغام جائے گا ، دوسرے علماء اور خواص کا یہ کریمانہ اور شریفانہ برتاؤ اس کو متاثر کیے بغیر نہیں چھوڑے گا، چناں چہ کیا معلوم کہ وہ اس سے متاثر ہو کر علماء کی ہم نشینی اور خواص کی صحبت کو لازم پکڑلے، اور اس کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ دیگر علماء تک اس پیغام خاص کو پہنچا کر ثواب دارین حاصل کریں۔ ____________🌹🌹____________ (کتاب : ماہنامہ زاد السعید کراچی (نومبر) صفحہ نمبر : ۲۸ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ)

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

​​​​​​بہادر ماں، حضورﷺ کی عزت پہ دس بیٹے قربان

​​​​​​بہادر ماں، حضورﷺ کی عزت پہ دس بیٹے قربان

شاعرِ ختم نبوت سید امین گیلانیؒ اپنی جیل کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : " ایک دن جیل کا سپاہی آیا اور مجھ سے کہا آپ کو دفتر میں سپرنٹنٹ صاحب بلا رہے ہیں میں دفتر پہنچا تو دیکھا کہ والدہ صاحبہ مع میری اہلیہ اور بیٹے سلمان گیلانی کے، جس کی عمر اس وقت سوا، ڈیڑھ سال تھی، بیٹھے ہوئے ہیں ۔ والدہ محترمہ مجھے دیکھتے ہی اُٹھیں اور سینے سے لگایا، ماتھا چومنے لگیں ـ حال احوال پوچھا، ان کی آواز گلوگیر تھی ـ سپرنٹنٹ نے محسوس کرلیا کہ وہ رو رہی ہیں ـ میرا بھی جی بھر آیا، آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے ـ یہ دیکھ کر سپرنٹنٹ نے کہا اماں جی! آپ رو رہی ہیں؟ بیٹے سے کہیں( ایک فارم بڑھاتے ہوئے) کہ اس پر دستخط کردے تو آپ اسے ساتھ لے جائیں ـ ابھی معافی ہوجائے گی! میں ابھی خود کو سنبھال رہا تھا کہ اسے کچھ جواب دے سکوں ـ اتنے میں والدہ صاحبہ تڑپ کر بولیں کیسے دستخط؟ کہاں کی معافی؟ میرا جی چاہتا ہے کہ میں ایسے دس بیٹے حضورﷺ کی عزت پر قربان کردوں ـ میرا رونا تو شفقت مادری ہے ـ یہ سن کر سپرنٹنٹ شرمندہ ہوگیا اور میرا سینہ ٹھنڈا ہوگیا ـ حوالہ : تحریک ختمِ نبوت کی یادیں، طاہر عبدالرزاق، دفتر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان، ص ۱۹۱ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ کتاب : ہر واقعہ بے مثال جلد دوم (صفحہ نمبر ۱۵۱ ) مصنف : ابو طلحہ محمد اظہار الحسن محمود ناشر : مکتبہ الحسن اشاعت: اپریل ۲۰۱۴ء انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو