بادشاہ اور سیب فروش

ایک دن ایک حکمران محل میں بیٹھا ہوا تھا. جب اس نے محل کے باہر ایک سیب فروش کو آواز لگاتے ہوئے سنا: *"سیب خریدیں! سیب!"* *حاکم نے باہر دیکھا کہ ایک دیہاتی آدمی اپنے گدھے پر سیب لادے بازار جا رہا ہے۔حکمران نے سیب کی خواہش کی اور اپنے وزیر سے کہا: خزانے سے 5 سونے کے سکے لے لو اور میرے لیے ایک سیب لاؤ۔* *وزیر نے خزانے سے 5 سونے کے سکے نکالے اور اپنے معاون سے کہا: یہ 4 سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔* *معاون وزیر نے محل کے منتظم کو بلایا اور کہا: سونے کے یہ 3 سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔* *محل کےمنتظم نے محل کے چوکیداری منتظم کو بلایا اور کہا:* *یہ 2 سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔* *چوکیداری کے منتظم نے گیٹ سپاہی کو بلایا اور کہا:* *یہ 1 سونے کا سکہ لے لو اور ایک سیب لاؤ۔* *سپاہی سیب والے کے پیچھے گیا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کہا:* *دیہاتی انسان! تم اتنا شور کیوں کر رہے ہو؟ تمہیں نہیں پتا کہ یہ مملکت کے بادشاہ کا محل ہے اور تم نے دل دہلا دینے والی آوازوں سے بادشاہ کی نیند میں خلل ڈالا ہے. اب مجھے حکم ہوا ہے کہ تجھ کو قید کر دوں۔* *سیب فروش محل کے سپاہیوں کے قدموں میں گر گیا اور کہا:* *میں نے غلطی کی ہے جناب !* *اس گدھے کا بوجھ میری محنت کے ایک سال کا نتیجہ ہے، یہ لے لو، لیکن مجھے قید کرنے سے معاف رکھو !* *سپاہی نے سارے سیب لیے اور آدھے اپنے پاس رکھے اور باقی اپنے منتظم کو دے دیئے۔* *اور اس نے اس میں سے آدھے رکھے اور آدھے اوپر کے منتظم کو دے دیئے اور کہا,* *کہ یہ 1 سونے کے سکے والے سیب ہیں۔* *افسر نے ان سیبوں کا آدھا حصہ محل کےمنتظم کو دیا، اس نے کہا,* *کہ ان سیبوں کی قیمت 2 سونے کے سکے ہیں۔* *محل کے منتظم نے آدھےسیب اپنے لیے رکھے اور آدھے وزیر کو دیے اور کہا,* *کہ ان سیبوں کی قیمت 3 سونے کے سکے ہیں۔* وزیر نے آدھے سیب اٹھائے اور وزیر اعلی کے پاس گیا اور کہا,* *کہ ان سیبوں کی قیمت 4 سونے کے سکے ہیں۔* *وزیر نے آدھے سیب اپنے لیے رکھے اور اس طرح صرف پانچ سیب لے کر حکمران کے پاس گیا اور کہا,* *کہ یہ 5 سیب ہیں جن کی مالیت 5 سونے کے سکے ہیں۔* *حاکم نے اپنے آپ سوچا کہ اس کے دور حکومت میں لوگ واقعی امیر اور خوشحال ہیں، کسان نے پانچ سیب پانچ سونے کے سکوں کے عوض فروخت کیے۔ ہر سونے کے سکے کے لیے ایک سیب۔* *میرے ملک کے لوگ ایک سونے کے سکے کے عوض ایک سیب خریدتے ہیں۔ یعنی وہ امیر ہیں۔اس لیے بہتر ہے کہ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے اور محل کے خزانے کو بھر دیا جائے۔* *اور پھر یوں عوام میں غربت بڑھتی بڑھتی بڑھتی بڑھتی بڑھتی ہی چلی گئی۔* *فارسی ادب سے ماخوذ*

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ عدالت میں

حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ عدالت میں

 ایک مرتبہ حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ پر غداری کا مقدمہ چلا اور فرنگی کی عدالت ہال کراچی میں ان کی پیشی ہوئی، مولانا محمد علی جوہر اور بہت سارے دوسرےاکابرین بھی وہاں جمع تھے، فرنگی نے بلایا اور کہا کہ حسین احمد! یہ جو تم نے فتویٰ دیا ہے کہ انگریز کی فوج میں شامل ہونا حرام ہے۔ اس کی اجازت نہیں، تمہیں پتا ہے کہ اسکا نتیجہ کیا ہوگا؟ حضرت نے فرمایا کہ ہاں مجھے پتا ہے اس کا نتیجہ کیا ہے، اس نے پوچھا کہ کیا نتیجہ ہے؟ حضرت کے کندھے پر ایک سفید چادر تھی، حضرت نے اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ اس کا نتیجہ ہے، فرنگی نے کہا کہ کیا مطلب؟ فرمایا کہ کفن ہے، میں اپنے ساتھ لے کر آیا ہوں تاکہ تم اگر مجھے پھانسی بھی دے دو گے تو کفن میرے پاس ہوگا، مولانا محمد علی جوہر نے حضرت کے پاؤں پکڑ لیے اور عرض کیا کہ حضرت! تھوڑا سا ذومعنی سا جواب دے دیں جس سے آپ بچ جائیں، کیونکہ ہمیں آپکی بڑی ضرورت ہے، آپ ہمارے سر کا تاج ہیں، آپ جیسے اکابر ہمیں پھر نہیں ملیں گے مگر حضرت مدنیؒ کی اس وقت عجیب شان تھی۔سبحان اللہ فرنگی کہنے لگا: حسین احمد! تمہیں کفن لانے کی کیا ضرورت تھی؟ جس کو حکومت پھانسی دے اس کو کفن بھی حکومت دیتی ہے، حضرت مدنیؒ نے فرمایا: اگرچہ کفن حکومت دیتی ہے، لیکن میں اپنا کفن اس لیے لایا ہوں کہ فرنگی کے دیے ہوئے کفن میں مجھے اللہ کے حضور جاتے ہوئے شرم آتی ہے، میں قبر میں تمہارا کفن بھی لے کر جانا نہیں چاہتا۔ ہمارے اکابر کیا استقامت کے پہاڑ تھے۔ اللہ اکبر شجرہ نسب سے حسین احمد مدنی سید ہیں۔۔۔اور حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اولاد میں سے ہیں۔