انسان کی گزرتی زندگی.....!( رولا دینے والی کہانی)

بہت عرصہ پہلے ایک جگہ سیب کا ایک بہت بڑا درخت تھا ور روزانہ ایک بچہ وہاں آکر اُس درخت کے اِرد گِرد کھیلا کرتا تھا، وہ بچہ اس درخت کی ٹہنیوں سے چمٹ چمٹ کر اس کی چوٹی پر چڑھتا اس کے سیب کھاتا اور تھک کر اس کے سائے کے نیچے لیٹ کر مزے سے اونگھتا، وہ بچہ اس درخت سے محبت کرتا تھا اوروہ درخت بھی اس سے محبت کرتا تھا اور اس کے ساتھ کھیلنا پسند کرتا تھا۔ وقت گزرا اور بچہ بڑا ہوگیا۔ اور پھر بچہ ہر روز درخت کے ارد گِرد نہیں کھیلتا تھا ایک دن بچہ واپس آ گیا لیکن وہ دُکھی تھا۔ درخت نے کہا آؤ میرے ساتھ کھیلو بچے نے جواب دیا میں اب اتنا چھوٹا نہیں رہا کہ درختوں کے اِرد گِرد کھیلوں مجھے کھلونے چاہیں ، اور کھلونے خریدنے کے لیے مجھے پیسے چاہیئے۔ درخت نے کہا "میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔" لیکن یہ ہوسکتا ہےکہ تُم میرے سارے کے سارے سیب لے لو اور انہیں بیچ دو تاکہ تُمہیں پیسے مل جائیں۔ بچہ بہت ہی خوش ہوگیا بچہ درخت پر چڑھا اور سارے سیب توڑ لیے اور خوشی خوشی وہاں سے چلا گیا درخت نے اپنے سارے پھل کھو دیے، لیکن اُس کی خُوشی سے بہت ہی کم تھا وہ خُوشی جو اُسے بچے کی خُوشی دیکھ کر ہوئی لیکن درخت کی خوشی کچھ زیادہ دیر تک نہ رہ سکی کیونکہ ، بچہ سیب لے جانے کے بعد واپس نہیں آیا، لہذا درخت دُکھی ہوگیا۔ پھر ایک دن اچانک وہ بچہ واپس آ گیا لیکن اب وہ ایک مرد بن چکا تھا درخت اُس کے آنے پر بہت ہی زیادہ خوش ہوا اور اس سے کہا : آؤ میرے ساتھ کھیلو بچے نے جواب دیا میرے پاس کھیل کے لیے وقت نہیں کیونکہ مجھے اپنے بیوی بچوں کے لیے کام کرنا ہے، مجھے ایک گھر چاہئے جو ہمیں تحفظ دے سکے کیا تُم میری مدد کر سکتے ہو؟ مجھے افسوس ہے میرے پاس تو کوئی گھر نہیں لیکن تُم اپنا گھر بنانے کے لیے میری ٹہنیاں اور شاخیں کاٹ سکتے ہو اُس آدمی نے درخت کی ساری ہی ٹہنیاں اور شاخیں لے لیں اور پھر خوشی خوشی چلا گیا۔ جس طرح وہ پہلے اس کے پھل لے کر چلا گیا تھا درخت اس کو خوش دیکھ کر پھر سے بہت خُوش ہوا اور وہ ایک دفعہ پھر غائب ہو گیا۔ اور درخت کے پاس واپس نہ آیا درخت ایک دفعہ پھر اکیلا ہوگیا ، دُکھی ہو گیا پھر ایک لمبے عرصے کے بعد ، گرمیوں کے ایک گرم دِن میں وہ آدمی واپس آیا اور درخت ایک دفعہ پھر خُوشی کی انتہاء کو چُھونے لگا اب شاید یہ میرے ساتھ کھیلے، آؤ میرے ساتھ کھیلو درخت نے کہا ۔۔۔ آدمی نے درخت سے کہا میں اب بوڑھا ہوگیا ہوں اور چاہتا ہوں کہ کسی دریا میں کشتی رانی کرتے ہوئے کسی پرسکون جگہ میں جا پہنچوں آدمی نے درخت سے کہا کیا تُم مجھے ایک کشتی دے سکتے ہو؟ درخت نے کہا تُم میرا تنا لے کر اس کی کشتی بنا لو اس طرح تُم اس کے ذریعے دور تک جا سکتے ہو اور خوش ہو سکتے ہو ۔ تو اُس آدمی نے درخت کا تنا کاٹ لیا اور اس کی کشتی بنا لی اور پھر آدمی کشتی میں سوار ہو کر چلا گیا اور ایک لمبی مدت تک واپس نہ آیا آخر کار دیر تک غائب رہنے کے بعد وہ آدمی واپس آیا اُسے دیکھ کر درخت نے دُکھ سے کہا مجھے افسوس ہے میرے بیٹے کہ اب میرے پاس تُمہیں دینے کے لیے اور کچھ نہیں اور کہا تُمارے لیے اب اور سیب بھی نہیں ہیں۔ آدمی نے کہا کوئی بات نہیں اب میرے دانت بھی نہیں جن سے میں سیب کو کاٹ سکتا۔ تُمارے کودنے پھاندنے کے لیے اب میرا تنا بھی نہیں ۔ تو آدمی نے کہا میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں ایسا کام نہیں کر سکتا۔ درخت نے کہا میرے بیٹے اب میرے پاس واقعتاً کچھ بھی نہیں جو میں تمہیں دے سکوں اب صرف میری مرتی ہوئی جڑیں ہی بچی ہیں درخت نے روتے ہوئے آنسوؤں سے لبریز آواز میں کہا ۔ آدمی نے کہا : اب مجھےصرف کوئی ایسی جگہ چاہیے جہاں میں سُکون سے آرام کرسکوں ۔ بہت اچھی بات ہے بوڑھے درخت کی بوڑھی جڑیں تُمارے آرام کرنے کے لیے بہت اچھی جگہ ہیں۔ درخت نے کہا : آؤ میرے ساتھ بیٹھو تاکہ تُم سُکون پاؤ ،،، آ جاؤ آدمی درخت کے پاس آ بیٹھا درخت پھر سے خُوش ہوگیا مسکرایا اور اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تِھیں۔ کیا آپ جانتے ہیں یہ درخت کون ہے ؟؟ یہ درخت آپ کے والدین ہیں،،،، اپنے والدین کی قربانیوں کی قدر کیجئے ، آپ ان کا حق تو کبھی بھی ادا نہیں کر سکتے مگر انکی خوب خدمت اور فرمانبرداری کیجیے تاکہ آپ کی دنیا اور آخرت سنور جائے ان شاء الله __________📝📝📝__________ منقول۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

شمعِ فروزاں: دینِ حق اور ابراہیمی فتنہ

شمعِ فروزاں: دینِ حق اور ابراہیمی فتنہ

(ملخص - اسلامک ٹیوب پرو اپپ ) اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لیے ایک مقرر راستہ بنایا ہے۔ کھانا منہ سے معدے تک جاتا ہے، جہاں لعاب اسے ہضم کے قابل بناتا ہے۔ سانس ناک سے پھیپھڑوں تک جاتی ہے۔ اگر کوئی اس قدرتی نظام کو بدلنے کی کوشش کرے، جیسے کھانا ناک میں ڈالے، تو زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح، اللہ نے انسان کی دنیاوی اور اخروی کامیابی کے لیے ایک راستہ بنایا—اسلام۔ یہ وہ دین ہے جو اللہ کے رسولوں نے سکھایا، جس میں اللہ کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: إن الدين عند الله الإسلام (آل عمران: 19)۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ مقبول نہیں، جیسا کہ فرمایا: ومن يتبع غير الإسلام دينا فلن يقبل منه (آل عمران: 85)۔ اسلام کی آفاقی حقیقت اسلام اول دن سے موجود ہے۔ حضرت آدمؑ سے لے کر تمام انبیاء نے اسی کی دعوت دی۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹوں کو اسی کی وصیت کی: فلا تموتن إلا وأنتم مسلمون (البقرہ: 132)۔ ان کی نسل سے دو عظیم شاخیں پھیلیں—حضرت اسماعیلؑ سے نبی اکرمﷺ اور حضرت اسحاقؑ سے انبیاء بنی اسرائیل۔ مکہ میں کعبہ اور بیت المقدس کی تعمیر بھی حضرت ابراہیمؑ کے ہاتھوں ہوئی۔ یہودیت اور عیسائیت بھی انہی سے منسوب ہیں، مگر تحریف نے ان کی اصلیت مسخ کردی۔ صرف اسلام، جو قرآن اور نبیﷺ کے ذریعے مکمل ہوا، دینِ ابراہیمی کی سچی شکل ہے۔ ابراہیمی فتنہ: مغرب کی سازش آج مغرب ’ابراہیمیہ‘ کے نام سے ایک نیا فتنہ پھیلا رہا ہے، جس کا مقصد اسلام، یہودیت اور عیسائیت کو ملا کر ایک نیا مخلوط مذہب بنانا ہے۔ اس کی ابتدا 1979 کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے ہوئی، جب امریکی صدر جمی کارٹر نے ’ابراہیم کے بیٹوں‘ کے لیے امن کی بات کی۔ 1993 کے اوسلو اور 1994 کے اردن-اسرائیل معاہدوں میں بھی یہی اصطلاح استعمال ہوئی۔ 2020 میں ’ابراہام ایکارڈ‘ کے تحت عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے تعلقات استوار کیے، اور ابوظہبی میں ’ابراہیمہ ہاؤس‘ بنایا گیا، جہاں مسجد، چرچ اور یہودی عبادت گاہ ایک ہی احاطے میں ہیں۔ یہ وحدتِ ادیان کی عالمی کوشش ہے، جو مستقبل میں ہندو اور بدھ مت کو بھی شامل کر سکتی ہے۔ اسلام کا ردعمل اسلام میں مخلوط مذہب کا کوئی تصور نہیں۔ عقیدہ توحید، شریعت اور اخلاق پر مبنی اسلام دیگر مذاہب سے الگ ہے۔ یہودیت اور عیسائیت نے شریعت کو ترک کردیا، جبکہ اسلام نے حلال و حرام کے احکام کو نظام کی شکل دی۔ سود اور زنا کی حرمت پر قرآن اور تورات کا اتفاق ہے، مگر مغرب انہیں فروغ دیتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے شرک سے براءت کا اعلان کیا: إني بريء مما تشركون (الانعام: 78)۔ نبیﷺ نے بھی مکہ والوں کی مخلوط مذہب کی پیشکش ٹھکرائی: لا أعبد ما تعبدون (الکافرون: 2)۔ مسیلمہ کذاب اور اکبر کے ’دین الٰہی‘ جیسی کوششیں بھی ناکام ہوئیں۔ حل کیا ہے؟ مذاہب کے درمیان رواداری کا راستہ قرآن نے بتایا: لكم دينكم ولي دين (الکافرون: 6)۔ ہر مذہب اپنے عقیدے پر قائم رہے اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرے۔ جان، مال، عزت اور مذہبی جذبات کی حفاظت ضروری ہے۔ مسلمانوں کو اس فتنے سے ہوشیار رہنا چاہیے اور دینِ حق پر استقامت دکھانی چاہیے۔ اللہ عالمِ اسلام کو اس سازش سے محفوظ رکھے۔