بیٹے کا اسلام قبول کرنا: ایک فرانسیسی ماں کی حیرت انگیز خواہش

ایک فرانسی عورت اپنے چودہ سالہ بیٹے کو لے کر فرانس کے اسلامک سنٹر میں آئی تاکہ اس کا بیٹا مسلمان ہو جائے ، وہ دونوں اسلامک سنٹر پہنچ گئے ، اسلامک سنٹر کے ناظم کے آفس میں جا کر بچے نے ملاقات کی ، بچے نے کہا میری امی چاہتی ہے میں مسلمان ہو جاؤں ، مرکز اسلامی کے ناظم نے بچے سے پوچھا کیا تم اسلام قبول کرنا چاہتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ بچے نے جواب دیا، میں نے ابھی تک اس پر غور نہیں کیا ہے لیکن میری ماں کی خواہش ہے میں اسلام قبول کرلوں ، ناظم کو بچے کے اس جواب پر بڑی حیرت ہوئی ، اس نے بچے سے پوچھا کیا تمھاری ماں مسلمان ہے۔۔۔۔۔؟ بچے نے کہا کہ نہیں میری ماں مسلمان نہیں ہے اور نہ ہی مجھے معلوم ہے کہ وہ مجھے اسلام قبول کرنے کے لئے کیوں کہتی ہے ، ناظم نے پوچھا ، تمھاری ماں کہاں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ بچے نے کہا وہ مرکز اسلامی کے باہر کے حصہ میں کھڑی ہے ، ناظم نے کہا اپنی ماں کو بلا لاؤ، تاکہ میں اس سے گفتگو کر کے صورتحال جان سکوں ، بچہ اپنی ماں کو لے کر ناظم کے پاس آیا ، ناظم نے ماں سے پوچھا کہ کیا یہ بات درست ہے ، کہ تم مسلمان نہیں ہو اور چاہتی ہو کہ تمھارا بیٹا مسلمان ہو جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ماں نے کہا کہ یہ بات بالکل ٹھیک ہے ، ناظم کو اس جواب پر بڑی حیرانی ہوئی اس نے ماں سے پوچھا کیوں چاہتی ہو تمھارا بیٹا اسلام قبول کرلے ، * ماں نے جو جواب دیا وہ حیرت زدہ کرنے والا تھا ماں نے بتایا میں پیرس کے جس فلیٹ میں رہتی ہوں ، میرے فلیٹ کے بالمقابل ایک مسلم فیملی کا فلیٹ ہے اس کے دو بچے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ، صبح و شام جب بھی یہ دونوں بچے گھر سے نکلتے ہیں یا گھر میں داخل ہوتے ہیں وہ اپنی والدہ کی پیشانی چومتے ہیں اور ہاتھ کو بوسہ دیتے ہیں اور بڑے احترام اور ادب سے اپنی ماں کے ساتھ پیش آتے ہیں ، گویا وہ ماں کسی ملک کی پرائمنسٹر ہو ، * میں نے جب سے یہ منظر دیکھا ہے میری دلی تمنا ہو گئی ہے کہ میرا بیٹا بھی مسلمان ہو جائے ورنہ مجھے ڈر ہے ، میں جب بوڑھی ہو جاؤں وہ کہیں مجھے اولڈ ایج ہوم میں نہ رکھے ، میں چاہتی ہوں وہ میرے ساتھ ایسا سلوک کرے ، جیسے یہ مسلم ماں کے بچے اپنی والدہ کے ساتھ کرتے ہیں ______________📝📝📝______________ منقول۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

غلام کا آقا کو حکیمانہ طمانچہ

غلام کا آقا کو حکیمانہ طمانچہ

جنگ اسکندریہ میں رومی ایک قلعے میں بند تھے اور مسلمانوں نے اس قلعے کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ ایک روز رومی میدان میں نکلے اور سپہ سالار حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ چند سوار لے کر ان کے مقابل ہوئے ، گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ مسلمان رومیوں کو دباتے ہوئے برابر قلعے کی طرف چلے گئے اور رومیوں کے ہمراہ قلعہ کے اندر داخل ہو گئے ۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ہر ایک لڑائی میں سب سے آگے ہوا کرتے تھے۔ اس موقعے پر بھی وہ سب سے آگے تھے۔ رومیوں نے مسلمانوں کو دروازے میں دیکھا تو سخت گھبرائے اور چار اطراف سے سپاہیوں کے گروہ کے گروہ دروازے پر اپنے ہمراہیوں کی پشت پر آگئے اور پھر قلعے کا دروازہ ایک دم بند کر دیا۔ اس اثناء میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مسلمہ بن مخلد اور اپنے غلام دردان کے ساتھ قلعہ کے اندر ہی رہ گئے۔ رومی انہیں گرفتار کر کے اپنے اعلی افسر کے پاس لے گئے۔ رومی افسر نے ان قیدیوں کو معمولی سپاہی سمجھا۔ کیونکہ حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ نے کوئی جرنیلی وردی نہیں پہنی ہوئی تھی بلکہ ان کا لباس بالکل اپنے ہمراہی اور غلام کا سا سادہ تھا۔ اس لیے رومی افسر نے بڑی حقارت سے انہیں مخاطب کر کے کہا: تم بھوکے ننگے اور جاہل عربوں نے ان ممالک میں فتنہ برپا کر رکھا ہے۔“ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے نہایت بیباکانہ طور پر جواب دیا: ”ہم فتنہ پھیلانے نہیں آئے۔ بلکہ ہم ان اقوام کو پستی سے نکال کر ترقی و خوشحالی کے بام پر پہنچانے آئے ہیں۔ ہم اسلام کی برکتیں ساتھ لائے ہیں جو ہم ہر ایک قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اگر تم اس لازوال دولت سے محروم رہنا چاہتے ہوتو ہم تمہیں اپنی حفاظت میں لے کر اس ملک کو دار الامان بنادیں گے۔“ رومی افسر یہ دلیرانہ جواب سن کر اپنے ماتحتوں کو رومی زبان میں کہنے لگا: یہ شخص عربی لشکر کا سردار معلوم ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ ہم اسے قتل کر دیں تا کہ مسلمانوں پر ہماری دہشت بیٹھ جائے۔“ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا غلام دردان رومی زبان سمجھتا تھا۔ اس نے اپنے آقا کو خطرے میں دیکھا تو حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے منہ پر زور سے طمانچہ مارا اور کہا: بے ادب گستاخ کس نے تمہیں اختیار دیا ہے کہ اہل عرب کی طرف سے ایسے کلمات دو افسروں اور حاکموں کے سامنے کہو۔ چپ رہو۔ یہ تمہارا کام نہیں ۔“ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے اور مسلمہ بن مخلد نے کہا: بے شک ہمیں ایسی کوئی بات کہنے کا حق نہیں اور اگر آپ اپنے چند اعلی افسر اہل عرب کے افسروں کے پاس بھیجیں تو ممکن ہے کہ وہ سب مل کر ایسی شرائط باہم طے کر لیں جن پر ہم میں اور آپ میں صلح ہو جائے کیوں کہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ عرب سردار جنگ کی نسبت صلح کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔“ اب رومی افسر سمجھا حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کوئی بڑے آدمی نہیں ، عام سے سپاہی ہیں ورنہ انہیں طمانچہ کیوں پڑتا ۔ وہ اہل عرب کی شدت محاصرہ سے تنگ آچکا تھا۔ اس بات سے بہت خوش ہوا اور کہا: ”اچھا ہم تمہیں چھوڑ دیتے ہیں، تم جا کر اپنے افسروں سے کہو کہ وہ صلح کرنا چاہیں تو ہم بالکل تیار ہیں ۔ مسلمہ بن مخلد نے رومی افسر کا شکریہ ادا کیا اور رومی سپاہی انہیں قلعے کے باہر چھوڑ آئے۔ ادھر اسلامی لشکر میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اور مسلمہ کی گرفتاری کے باعث بڑی پریشانی تھی۔ مگر جونہی انہوں نے اپنے سردار کو صحیح و سالم آتے دیکھا تو مارے خوشی کے اللہ اکبر کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ رومیوں کے کانوں میں یہ خوشی کی آواز پڑی تو وہ بہت پریشان ہوئے۔ غلام نے آقا کو جو طمانچہ مارا تھا، اس کی حکمت اب ان کی سمجھ میں آئی۔ __________📝📝📝__________ کتاب : حکمت و نصیحت کے حیرت انگیز واقعات۔ صفحہ نمبر: ۸۳-۸۴ مصنف : محمد اسحق ملتانی۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ