ایک بورڈ اور دو جملے

ایک اندھا آدمی عمارت کے پاس بیٹھا تھا اور پاس ایک بورڈ رکھا تھا جس پہ لکھا تھا میں اندھا ہوں برائے مہربانی میری مدد کریں ساتھ میں اس کی ٹوپی پڑی ہوئی تھی جس میں چند سکے تھے . ایک آدمی وہاں سے گزر رہا تھا اس نے اپنی جیب سے چند سکے نکالے اور ٹوپی میں ڈال دیے اچانک اس کی نظر بورڈ پر پڑی اس نے بورڈ کو اٹھایا اور اس کی دوسری طرف کچھ الفاظ لکھے اور بورڈ کو واپس رکھ دیا تاکہ لوگ اس کو پڑھیں آدمی کے جانے کے بعد کچھ ہی دیر میں ٹوپی سکوں سے بھر گئی دوپہر کو وہی آدمی واپس جانے کے لیے وہاں سے گزر رہا تھا کہ اندھے نے اس آدمی کے قدموں کی آہٹ کو پہچان لیا اور اس سے پوچھا کہ تم وہی ہو جس نے صبح میرے بورڈ پر کچھ لکھا تھا. آدمی نے کہا کہ ہاں میں وہی ہوں اندھے نے پوچھا کہ تم نے کیا لکھا تھا ؟ کہ کچھ ہی دیر میں میری ٹوپی سکوں سے بھر گئی جو سارے دن میں نہ بھرتی آدمی بولا : میں نے صرف سچ لکھا لیکن جس انداز میں تم نے لکھوایا تھا اس سے تھوڑا مختلف تھا میں نے لکھا آج کا دن بہت خوبصورت ہے لیکن میں اس قابل نہیں کہ اس کا نظارہ کر سکوں آدمی نے اندھے کو مخاطب کر کے کہا : تم کیا کہتے ہو کہ جو پہلے لکھا تھا اور جو میں نے بعد میں لکھا دونوں کا اشارہ ایک ہی طرف نہیں ہے؟ اندھے نے کہا یقیناً دونوں تحریریں یہی بتاتی ہیں کہ آدمی اندھا ہے لیکن پہلی تحریر میں سادہ لفظوں میں لکھا تھا کہ میں اندھا ہوں اور دوسری تحریر لوگوں کو بتاتی ہے کہ آپ سب بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ اندھے نہیں ہیں . نتیجہ : ہم کو ہر حال میں اللہ شکر ادا کرنا چاہیے ہمارا ذہن تخلیقی ہونا چاہیے نہ کہ لکیر کے فقیر جیسا ، ہمیں ہر حال میں مثبت سوچنا چاہیے جب زندگی آپ کو 100 وجوہات دے رونے کی ، پچھتانے کی تو آپ زندگی کو 1000 وجوہات دیں مسکرانے کی افسوس کے بغیر اپنے ماضی کو تسلیم کریں ، اعتماد کے ساتھ حال کا سامنا کریں اور خوف کے بغیر مستقبل کے لیے تیار رہیں

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ کی رستم سے ایمان افروز گفتگو 🔸

حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ کی رستم سے ایمان افروز گفتگو  🔸

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی امارت و سرکردگی میں ایک لشکر ایرانیوں سے مقابلے کے لیے گیا ، ایرانی لشکر کا سپہ سالار مشہور زمانہ پہلوان و بہادر ’’ رستم ‘‘ تھا ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے رستم کی درخواست پر حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ کو اس سے بات چیت کے لیے بھیجا ، ایرانیوں نے رستم کا دربار خوب سجا رکھا تھا ، ریشم وحریر کے گدے ، بہترین قالین ، سونے و چاندی کی اشیا اور دیگر اسبابِ زینت سے آراستہ پیراستہ کردیا تھا ، حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ گھوڑے پر سوار ، ہتھیارات سے لیس ، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ، اس شان کے ساتھ رستم کے دربار میں پہنچے ، کہ ننگی تلوار آپ کے ہاتھ میں تھی ۔ دربار میں رستم کا فرش بچھاہوا تھا ، آپ گھوڑے کو اسی پر چلاتے ہوئے اندر جانے لگے ، رستم پہلوان کے آدمیوں نے ان کو روکا اور ان سے کہا کہ کم سے کم تلوار تو زیرِنیام کرلیں ۔ حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمھاری دعوت پر آیاہوں ، میری مرضی اور خواہش سے نہیں ، اگر تم اس طرح آنے نہ دوگے ؛ تو میں لوٹ جائوں گا ۔ جب رستم نے یہ دیکھا تو اپنے لوگوں سے کہا کہ ان کو اسی حالت میں آنے دو ۔ چناںچہ آپ اسی شان کے ساتھ رستم کے پاس پہنچے اور فرش جگہ جگہ سے تلوار کی نوک کی زد میں آکر پھٹ گیا تھا ۔ رستم نے پوچھا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ نے ایسا جواب دیا ، جو ہمیشہ کے لیے لاجواب رہے گا ۔ آپ نے کہا : ’’ اللّٰہ ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادۃ العباد إلی عبادۃ اللّٰہ ، و من ضیق الدنیا إلی سعتھا ، و من جور الأدیان إلی عدل الإسلام ۔ ‘‘ ( اللہ نے ہمیں اس لیے مبعوث کیا ہے کہ ہم اللہ کے بندوں میں سے اللہ جن کو چاہے ؛ ان کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی کی طرف لائیں اور دنیا کی تنگیوں سے نکال کر اس کی وسعتوں میں لے جائیں اور دنیا کے مختلف مذاہب کے ظلم و جورسے اسلام کے عدل و انصاف کی طرف لائیں ۔ ) ( تاریخ الطبري : ۲ ؍ ۴۰۱ ، البدایۃ والنہایۃ : ۸ ؍ ۳۹ ) اس واقعے سے اسلامی معاشرے کے افراد کی مظاہر کائنات سے ، دنیا کی دل فریبیوں سے اور مادی طاقتوں سے بے رغبتی و بے خوفی کا عظیم الشان مظاہرہ ہورہا ہے ، یہی چیز اسلامی معاشرے کو کفر وشرک سے نکالتی اور شیطانی وطاغوتی قوتوں کے مقابلے میں روحانی و ایمانی طاقت بخشتی ہے ۔ _____📝📝📝_____ منقول ۔ انتخاب اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔