کراماتی مشین

یہ کہانی شام میں پیش آئی، جسے ایک درزی کے مالک نے بیان کیا ہے ۔ کہانی کے راوی کہتے ہیں : میں ایک درزی کے کارخانے کا مالک تھا ۔ میری ایک ہمسائی تھی جس کا شوہر فوت ہو چکا تھا اور اس نے تین یتیم بچے چھوڑے تھے۔ ایک دن وہ میرے کارخانے میں آئی اور کہنے لگی: "اے فلاں، میرے پاس ایک سلائی مشین ہے جس پر میرا شوہر کام کرتا تھا اور ہم اس پر کام کرنا نہیں جانتے۔ میں چاہتی ہوں کہ ان یتیم بچوں کی کفالت کروں، کیا میں اس مشین کو آپ کے کارخانے میں لا کر آپ کو کرایہ پر دے سکتی ہوں تاکہ مجھے کچھ آمدنی ہو اور میں اپنے خاندان کا پیٹ پال سکوں؟" میں اس کی بات سن کر شرمندہ ہو گیا (اور شرم کبھی بھی برائی کی طرف نہیں لے جاتی)۔ میں نے کہا: "بہن، بالکل! آپ اسے میرے پاس بھیج دیں۔" جب اس نے مشین لائی تو میں نے دیکھا کہ وہ بہت پرانا ماڈل تھا اور کسی کام کا نہیں تھا۔ لیکن میں اس عورت کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: "بہن، آپ اس مشین کا کرایہ کیا لینا چاہتی ہیں؟" اس نے کہا : "تین ہزار لیرہ" ۔۔۔ اور یہ واقعہ جنگ سے بیس سال پہلے کا ہے۔ میں نے اسے تین ہزار لیرہ دیئے اور مشین کو ایک کونے میں رکھ دیا کیونکہ وہ کسی کام کی نہیں تھی۔ لیکن میں نے اس کا دل نہیں توڑا۔ ہم دس سال تک اسی حالت میں رہے ۔ ہر مہینے ام جمیل آتی اور مشین کا کرایہ لیتی، جبکہ مشین کارخانے کے ایک کونے میں پڑی رہتی اور کوئی کام نہیں کرتی تھی۔ دس سال بعد ، ہم نے چھوٹے کارخانے سے ایک نئے کارخانے میں منتقل کیا جو قصبے کے کنارے پر تھا۔ جب ہم سامان منتقل کر رہے تھے تو میں نے کہا: "ام جمیل کی مشین بھی لے جاؤ۔" کارخانے کی منیجر نے کہا: "سر، ہمیں ام جمیل کی مشین کی کیا ضرورت ہے؟ کیوں اسے لے جائیں؟" میں نے کہا: "یہ پوچھنا تمہارا کام نہیں، بس اسے لے جاؤ۔" دن اور سال گزرتے گئے ۔ پھر جنگ شروع ہوگئی۔ اور خدا کی قسم، اس علاقے میں سب کچھ تباہ ہوگیا سوائے میرے کارخانے کے۔ جنگ کی وجہ سے، ام جمیل سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ ہم نے بہت کوشش کی مگر اس کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ ہر بار جب ہم اس کے نمبر پر فون کرتے تو وہ بند ہوتا۔ میری کارخانے کی منیجر مجھے چھوڑ کر یورپ چلی گئی۔ دو ماہ بعد، اس نے مجھے فون کیا اور کہا: "میں نے ایک خواب دیکھا ہے جناب اور میں چاہتی ہوں کہ آپ اسے سنیں۔" میں نے پوچھا: "وہ کیا خواب ہے؟" اس نے کہا: "میں نے خواب میں سنا کہ ایک آواز کہہ رہی تھی : 'فلاں کو کہو کہ ام جمیل کی مشین کی برکت سے ہم نے تمہارے کارخانے کو اس جنگ میں محفوظ رکھا۔'" کہانی کا راوی کہتا ہے: "میری جلد کانپ گئی اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے کہا: 'الحمدللہ'۔ اور خدا کی قسم، میرے کارخانے سے ایک سوئی بھی غائب نہیں ہوئی، حالانکہ اس علاقے میں سب کچھ تباہ و برباد ہوگیا تھا۔" 🎯 *عبرت :* نیکی کے کام ہر برائی اور نقصان سے بچاتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے صحیح وعدہ فرمایا ہے : _اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیۡعُ اَجۡرَ مَنۡ اَحۡسَنَ عَمَلًا_ ﴿ۚسورة الكهف : آیت ۳۰﴾ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے ، تو یقینا ہم نیکو کار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے ۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہ خود اپنی نظر میں

حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہ خود اپنی نظر میں

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے تھانہ بھون میں متعینہ ایک پولیس افسر نے بیعت کی درخواست کی، جس کے جواب میں آپ نے انہیں اپنا تعارف کراتے ہوئے لکھا: میں ایک خشک طالب علم ہوں، اس زمانہ میں جن چیزوں کو لوازم درویشی سمجھا جاتا ہے جیسے میلاد شریف، گیارہویں، عرس، نیاز، فاتحہ، قوالی و تصرف ومثل ذالک۔ میں ان سب سے محروم ہوں اور اپنے دوستوں کو بھی اس خشک طریقے پر رکھنا پسند کرتا ہوں۔ میں نہ صاحب کرامت ہوں اور نہ صاحب کشف، نہ صاحب تصرف، نہ عامل، صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر مطلع کرتا رہتا ہوں، اپنے دوستوں سے کسی قسم کا تکلف نہیں کرتا، نہ اپنی حالت، نہ اپنی کوئی تعلیم، نہ امور دینیہ کے متعلق کوئی مشورہ چھپانا چاہتا ہوں عمل کرنے پر کسی کو مجبور نہیں کرتا، البتہ عمل کرتا ہوا دیکھ کر خوش اور عمل سے دور دیکھ کر رنجیدہ ضرور ہوتا ہوں۔ میں کسی سے نہ کوئی فرمائش کرتا ہوں، نہ کسی کی سفارش، اس لئے بعض اہل رائے مجھ کو خشک کہتے ہیں، میرا مذاق یہ ہے کہ ایک کو دوسرے کی رعایت سے کوئی اذیت نہ دوں، خواہ حرفی ہی اذیت ہو ۔ سب سے زیادہ اہتمام مجھ کو اپنے لئے اور اپنے دوستوں کیلئے اس امر کا ہے کہ کسی کو کسی قسم کی اذیت نہ پہنچائی جائے خواہ بدنی ہو جیسے مار پیٹ، خواہ مالی ہو جیسے کسی کا حق مار لینا یا ناحق کوئی چیز لے لینا، خواہ آبرو کے متعلق ہو جیسے کسی کی تحقیر، کسی کی غیبت، خواہ نفسانی ہو جیسے کسی کو کسی تشویش میں ڈالنا یا کوئی ناگوار رنجیدہ معاملہ کرنا اور اگر اپنی غلطی سے ایسی بات ہو جائے تو معافی چاہنے سے عار نہ کرنا۔ مجھے انکا اس قدر اہتمام ہے کہ کسی کی وضع خلاف شرع دیکھ کر تو صرف شکایت ہوتی ہے مگر ان امور میں کو تاہی دیکھ کر بے حد صدمہ ہوتا ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ اس سے نجات دے۔