دل اور دماغ کا باہمی ربط___!!!

دنیا دل اور دماغ کو ایک ہی خانہ میں رکھ دیتی ہے، دونوں کا سرا ایک دوسرے سے یوں ملادیتی ہے، جیسے ان میں کوئی بھی فرق نہ ہو اور نا کوئی امتیاز ہو یا پھر ایک انتہا یہ ہے؛ کہ دونوں کے درمیان اس قدر دوری پیدا کردیتی ہے، کہ جیسے دونوں کا وجود ہی ایک دوسرے سے دور رہنا اور متفرق رہنا ہو____ صحیح بات یہ ہے کہ دونوں ہی راستے انتہا پسندی کے ہیں، دل اور دماغ دونوں ایسے تار ہیں کہ جب تک وہ ایک دوسرے سے نہ ملیں کوئی چیز وجود میں نہیں آتی، میڈیکل سائنس بھی دونوں کو باہم رفیق تصور کرتی ہے، یہ بات الگ ہے کہ دونوں کا فکری امتیاز ہے، دونوں میں درد کا اور اپنائیت کا تعلق ہے، ایک سے کوئی کسی چیز کا ادراک کرتا ہے، تو دوسرے سے اس ادراک کا حسن و قبح جانتا ہے، ہمیشہ دل پر منحصر رہنا یا پھر ہمیشہ دماغ کو ہی اپنا رفیق ماننا مناسب نہیں ہے، اکثر و بیشتر اس رشتہ کو توڑ دیا جاتا ہے جو دونوں عناصر کے درمیان ہیں، یہی وجہ ہے کہ کئی دفعہ انتہاپسندی، تعصب اور کبھی بزدلی، بے دلی اور بے پروائی کا سامنا ہوتا ہے، جبکہ دونوں ایک ہنس مکھ اور ایک دوسرے کے معاون ہیں، مددگار ہیں، چنانچہ جس طرح دو متضاد وائر کو مناسب طور پر نہ ملایا جائے تو بلاسٹ ہوجاتا ہے، اسی طرح اگر دل و دماغ کے دونوں وائر بھی بہتر طریقے پر نہ ملائے جائیں تو تخریب کا ہی دروازہ کھلتا ہے، کہتے ہیں مغربی ممالک نے دماغ کا دروازہ کھولا تو ترقی پائی اور مشرقی ممالک نے دل کے درازے کھول کر ترقی پائی؛ اسی لئے دونوں ندی کے دو کنارے پر ہیں، کوئی میل ملاپ نہیں ہے، ایک دل کی دنیا آباد کرنے کو کہتا ہے، تو دوسرا مشینوں کو آباد کرنا چاہتا ہے؛ لیکن چونکہ دونوں الگ الگ ہیں اس لئے دونوں میں افتراق ہے، اختلاف اور بسااوقات انتشار بھی پایا جاتا ہے۔ اس دل اور دماغ کے رشتے کو جناب کلیم عاجز صاحب مرحوم نے بہت خوب سمجھا ہے اور سمجھایا ہے، وہ پڑھنے کے قابل ہے، آپ رقمطراز ہیں: "__ ہاں ایک بات عرض کروں گا_ لوگ دل کی باتوں کو بہت زیادہ دماغی باتوں سے آراستہ کر کے اور تہہ دار بنا کر پیش کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ میں دل اور دماغ کو علاحدہ علاحدہ کار فرما اور عامل نہیں مانتا۔ دونوں کا عمل متوازی ہے، اس لئے انہیں متوازن ہی رہنا چاہئے۔ اور یہ توازن فطری ہے۔ بغیر دونوں کے اشتراک عمل کے فن پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ میں " نکتہ چند بہ پیچیدہ بیانے" کا بالکل قائل نہیں ۔ میں دونوں میں کسی کو حاکم و محکوم، غالب و مغلوب نہیں سمجھتا۔ یہ ہنس مکھ ساتھی ہیں۔ ایک دوسرے کے فرمانبردار، ایک دوسرے کے یار، ایک دوسرے کے حال آشنا، رمز شناس و معاون و مددگار ہیں۔ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، شانہ سے شانہ ملائے، قدم بہ قدم چلتے ہیں۔ کوئی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش نہیں کرتا۔ میرے یہاں دونوں کی ہم آہنگی، ہم مزاجی مقدم ہے۔ میں نے چبا کر بھی بات نہیں کی ہے، دل کھول کر رکھ دیا ہے اور دل والوں کے سامنے رکھا ہے۔ دماغ والوں کے سامنے رکھا ہے۔اور یقین سے رکھا ہے۔ اعتماد سے رکھا ہے۔ اسی اعتماد سے جس اعتماد سے میر صاحب کہتے ہیں کہ: باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنئے گا کہتے کسی کو سنئے گا تو دیر تلک سر دھنئے گا (وہ جو شاعری کا سبب ہوا__:۱۷۵) ✍ محمد صابرحسین ندوی

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

میں وعدہ کرتا ہوں ماں ..!

میں وعدہ کرتا ہوں ماں ..!

یہ کہانی ڈاکٹر محمد راتب النابلسی کی ہے جو وہ اپنی ماں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن جب وہ چھوٹے تھے، ان کی ماں نے ان سے پوچھا: "کیا تم لفظ 'حلال' کہہ سکتے ہو بغیر اپنے ہونٹوں کو بند کیے؟" انہوں نے کوشش کی اور کامیابی کے ساتھ لفظ 'حلال' کہہ لیا بغیر اپنے ہونٹوں کو بند کیے۔ ان کی ماں نے خوش ہو کر ان کی تعریف کی اور انہیں چوم لیا۔ پھر ماں نے کہا: "کیا تم لفظ 'حرام' کہہ سکتے ہو بغیر اپنے ہونٹوں کو بند کیے؟" انہوں نے بہت بار کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ پھر انہوں نے اداس ہو کر کہا: "نہیں ماں، میں نہیں کر سکتا، جتنی بھی کوشش کروں، آخر میں میرے ہونٹ خود بخود بند ہو جاتے ہیں۔" اس پر ان کی ماں ہنس پڑیں اور کہنے لگیں: "یہی فرق ہے حلال اور حرام میں، بیٹا۔ حرام ہمیشہ بندش اور تنگی کا باعث بنتا ہے، جبکہ حلال ہمیشہ خوشی اور آسانی کا باعث بنتا ہے۔ اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ تم اپنے لیے کون سا راستہ چنتے ہو، حلال جو دنیا اور آخرت کے دروازے کھول دیتا ہے یا حرام جو سب دروازے بند کر دیتا ہے اس دن کے بعد جب وہ کوئی غلط کام کرتے تھے تو ان کی ماں اپنے ہونٹوں کو بند کر لیتی تھیں، اور ان کے چہرے پر غم کی لہر چھا جاتی تھی۔ لیکن جب وہ کوئی اچھا کام کرتے تھے تو ماں مسکراتے ہوئے اپنے ہونٹ کھول دیتی تھیں اور کہتیں کہ اگر تم ہمیشہ اپنی ماں کی مسکراہٹ دیکھنا چاہتے ہو تو ہمیشہ حلال اور پاکیزہ راستہ اپناؤ۔ جب ڈاکٹر محمد بڑے ہوئے تو انہوں نے کبھی اپنی ماں کی مسکراہٹ کو کھونے کی کوشش نہیں کی۔ جب ان کی ماں کا انتقال ہوا اور وہ آخری الوداع کہنے اور آخری بوسہ دینے کے لیے ان کے پاس گئے تو انہوں نے اپنی ماں کو مسکراتے ہوئے پایا، ان کے ہونٹ کھلے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا: "میں وعدہ کرتا ہوں ماں، میں ہمیشہ حلال کے راستے پر چلوں گا، اس کہانی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے بچوں کو صرف یہ نہ سکھائیں کہ کچھ کام عیب ہیں، بلکہ یہ بھی بتائیں کہ یہ حلال اور حرام ہیں، یہ اللہ کو خوش کرتا ہے اور یہ اللہ کو ناراض کرتا ہے، تاکہ وہ اللہ کی خوشنودی کے لیے زندگی گزاریں، نہ کہ لوگوں کے خوف سے۔ [صدقہ جاریہ کے لیے یہ تحریر شئیر ضرور کریں] ___________📝📝___________ منقول۔ انتخاب: اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔