علم کا بدصورت عاشق :

اصل نام عمرو بن محبوب تھا ، ۱۶۰ ہجری میں پیدا ہوئے اور جاحظ کے لقب سے معروف ہوئے ، عربی میں جاحظ اُسے کہتے ہیں جس کی آنکھوں کے ڈھیلے اُبھرے ہوں ۔ اوائل میں اس لقب کو ناپسند کرتے تھے ، رفتہ رفتہ خاموش ہو گئے ۔ شاید ہی کسی کی شکل کا یوں مذاق اڑایا گیا ہو ، کسی نے انہیں شیطان سے تشبیہ دی ہے اور کسی شاعر نے تو یونہی بھی کہا ہے : اگر خنزیر دوبارہ مسخ کر دیا جائے پھر بھی جاحظ سے کم ہی بدصورت ہوگا ۔ بادشاہ متوکل نے انہیں اپنے بچوں کا استاد مقرر کرنا چاہا ، شکل دیکھی تو انکار کر دیا ۔ حالانکہ معتزلی فکر سے وابستہ تھے ، اس کے باوجود عربی ادب کے امام گردانے جاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے : جاحظ نے جس کتاب کو پکڑ لیا اسے مکمل پڑھنے تک نیچے نہیں رکھا ۔ اکثر کتابوں کی دکانیں کرائے پر لے کر رات رات بھر پڑھتے رہتے تھے ۔ آخری عمر میں کافی بیماریوں کا شکار ہوئے ، آدھا جسم مفلوج ہو گیا ، یونہی پڑھنے میں مصروف تھے کہ ارد گرد پڑی کتابیں ان پر آگریں اور یوں علم کا بدصورت عاشق کتابوں کے قبرستان میں دفن ہو گیا ۔ (علی سنان)

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

علّامہ اِقبال اور جذبہ اطاعت رسول

علّامہ اِقبال اور جذبہ اطاعت رسول

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے سنت رسول کی پیروی کو اپنا شیوہ حیات بنالیا تھا۔ جوہر اقبال میں ایک عجیب اور بصیرت افروز واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ جس سے علامہ اقبال کے جذبہ شوق و اطاعت رسول کا اندازہ ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورے کے لیے اقبال اور سر فضل حسین اور ایک دو مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا، اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر، اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معا ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ جس رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے حاصل ہوئے ہیں، اس نے بوریے پر سوکر زندگی گزار دی تھی ۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی۔ اسی بستر پر لیٹنا ان کے لیے ناممکن ہو گیا۔ اٹھے اور برابر کے غسل خانے میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے، اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلوا کر اپنا بستر کھلوایا ، اور ایک چار پائی اسی غسل خانے میں بچھوائی۔ اور جب تک وہاں مقیم رہے، غسل خانے ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے۔ (محمد حسنین سید۔ جوہر اقبال - ص 39-40، مطبوعہ مکتبہ جامعہ دہلی 1938)(ماہنامہ صدائے اسلام/ستمبر/۲۰۲۴)