یتیموں کا مال۔۔۔نہایت عجیب واقعہ __؟؟

اردن میں گزشتہ دنوں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ نہایت ہی عجیب!!! ابوانس ایک نیک تاجر تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ جس کے جملہ اخراجات ابوانس پورے کرتا۔ کچھ عرصہ بعد ابوانس کا نوجوانی میں ہی انتقال ہوگیا۔ لواحقین میں نوجوان بیوہ اور ایک بیٹا انس رہ گیا۔ کچھ دن بعد ابوانس کا چھوٹا بھائی بھی اس کے گھر منتقل ہوا اور یہ آسرا دیا کہ مرحوم بھائی کی تجارت سنبھالنے کے ساتھ یتیم اور بیوہ کی کفالت بھی میں کروں گا۔ کچھ وقت تو معاملہ ٹھیک چلتا رہا۔ بعد میں اس کی نیت میں فتور آگیا۔ اس نے چھپکے سے ساری جائیداد اپنے نام کرائی اور راتوں رات سب کچھ فروخت کرکے امریکا بھاگ گیا۔ پیچھے یتیم اور اس کی ماں سڑک پہ آگئے۔ اس بدبخت نے امریکا جا کر گاڑیوں کا کاروبار سیٹ کردیا اور ایک گوری لڑکی سے شادی بھی کرلی۔ اس کا بزنس چمک اٹھا اور یہ ارب پتی بن گیا۔ ۱۵ برس بعد اسے خیال آیا کہ اب وطن واپس جانا چاہئے۔ یہ سوچ کر وہ اردن آگیا اور پھر یہیں بزنس کرنے کا ارادہ بنا۔ اس نے "ام اذینة" کے علاقے میں ایک بڑی جگہ خریدی اور اس پہ شاندار بلڈنگ بھی تعمیر کردی۔ پھر یہاں بھی گاڑیوں کا بزنس شروع کردیا اور کچھ عرصے میں ہی اردن بھر میں اس کا ڈنکا بجنے لگا۔ ادھر انس اور اس کی ماں انتہائی کسمپرسی سے رات دن گزارتے رہے۔ ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے انس نے تعلیم حاصل کی اور اب وہ شادی کرکے نوکری بھی کرنے لگ چکا تھا۔ غربت کے باوجود وہ اپنی ماں کا بہت خیال رکھتا۔ مگر بدبخت چچا کو کبھی اس کا خیال ہی نہیں آیا۔ لیکن انس اور اس کی ماں کو سب معلوم تھا کہ وہ حرام خور واپس آچکا ہے۔ ایک دن ماں نے بیٹے سے کہا کہ ہمت کرو، جاؤ اپنے چچا کے پاس اور اس سے اپنے باپ کے مال کا کچھ حصہ مانگو۔ ماں کے کہنے پہ انس چچا کے شو روم میں پہنچ گیا۔ مگر چچا نے کھٹور دلی کا مظاہرہ کرکے اسے بھگا دیا اور کہا کہ آئندہ ادھر کا رخ بھی کیا تو گرفتار کرادوں گا۔ وہ بوجھل قدموں کے ساتھ ماں کے واپس آیا اور ماجرا سارا سنایا۔ بیوہ سوائے بددعا کے کیا کرسکتی تھی۔ اس حرام خور بزنس مین نے اب اردن میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ ایک جنت نما محل تعمیر کر چکا تھا اور اب اس نے بیوی بچوں کو اپنے پاس اردن بلالیا۔ ادھر وہ لوگ امریکا سے روانہ ہوئے اور ادھر یہ بدبخت انہیں لینے کیلئے اپنی نئی ماڈل کی پرتعیش گاڑی لے کر ایئرپورٹ روانہ ہوا۔ جب وہ ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو یہ سب اس نئی گاڑی میں سوار ہوکر اپنے محل کی طرف چل پڑے۔ یہ سارا منظر دیکھ کر فرشتہ اجل ہنس رہا تھا۔ جیسے ہی ان کی گاڑی مین سڑک پہ پہنچی تو ایک تیز رفتار ٹرالر نے اسے روند ڈالا اور انس کا حرام خور چچا اپنی امریکن بیوی اور دونوں بچوں کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ پیچھے اس کا سوائے انس کے کوئی نہیں تھا۔ یہی اکلوتا وارث۔ اب اس کا محل، شو روم اور بزنس بیٹھے بٹھائے انس کی جھولی میں گر گیا۔ کیسا عجیب معاملہ ہے رب کریم کا۔ اس نے یتیم کے مال کو کئی گنا بڑھا کر اسے لوٹا دیا۔ وہ مظلوم کی دعا ضرور سنتا ہے اگرچہ اس کے ظاہر ہونے میں ۱۵ برس بھی لگ جائیں۔ دوسرا یہ کہ وہ ظالم کو ڈھیل ضرور دیتا ہے۔ لیکن جب پکڑتا ہے تو سامان عبرت بنا کر چھوڑتا ہے۔ تیسرا یہ کہ حرام کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ اس لیے میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مال حرام سے پلنے والے جسم دوزخ کا زیادہ حقدار ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو حرام سے بچائے اور حلال ہی پہ اکتفا کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ (عربی سے ترجمہ: ضیاء چترالی) منقول۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

اللہ کا کام اللہ ہی جانے : عبرت آموز واقعہ

اللہ کا کام اللہ ہی جانے : عبرت آموز واقعہ

سامان سے لدا ہوا ایک بحری جہاز محو سفر تھا کہ تیز ہواوں کی وجہ سے وہ الٹنے لگا ۔ قریب تھا کہ جہاز ڈوب جاتا ، اس میں موجود تاجروں نے کہا کہ بوجھ ہلکا کرنے کیلیئے کچھ سامان سمندر برد کرتے ہیں ۔ تاجروں نے مشورہ کر کے طے کیا کہ سب سے زیادہ سامان جس کا ہو ، وہی پھینک دیں گے ۔ جہاز کا زیادہ تر لوڈ ایک ہی تاجر کا تھا ۔ اس نے اعتراض کیا کہ صرف میرا سامان کیوں ؟ سب کے مال میں سے تھوڑا تھوڑ پھینک دیتے ہیں ۔ انہوں نے زبر دستی اس نئے تاجر کو سامان سمیت سمندر پھینک دیا ۔ قدرت کی شان کہ سمندر کی موجیں اس کے ساتھ کھلینے لگیں ۔ اسے اپنی ہلاکت کا یقین ہو گیا ، جب ہوش آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ لہروں نے اسے ساحل پر پھینک دیا ہے ۔ یہ ایک غیر آباد جزیرہ تھا ۔ جان بچنے پر اس نے رب کا شکر ادا کیا ۔ اپنی سانسیں بحال کیں، وہاں پڑی لکڑیوں کو جمع کر کے سر چھپانے کیلیئے ایک جھونپڑی سی بنائی. اگلے روز ا سے کچھ خرگوش بھی نظر آئے ۔ ان کا شکار کر کے گزر بسر کرتا رہا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ وہ کھانا پکا رہا تھا کہ اس کی جھونپڑی کو آگ لگ گئی ۔ اس نے بہت کوشش کی ، مگر آگ پر قابو نہ پاسکا ۔ اس نے زور سے پکارنا شروع کیا ، تو نے مجھے سمندر میں پھینک دیا ۔ میرا سارا سامان غرق ہو گیا ۔ اب یہی جھونپڑی تھی میری کل کائنات ، اسے بھی جلا کر راکھ کر دیا ۔ اب میں کیا کروں ؟ یہ شکوا کر کے وہ خالی پیٹ سو گیا ۔ صبح جاگا تو عجیب منظر تھا ۔ دیکھا کہ ایک کشتی ساحل پر لگی ہے اور ملاح اسے لینے آئے ہیں ۔ اس نے ملاحوں سے پوچھا کہ تمہیں میرے بارے میں کیسے پتہ چلا ؟ انہوں نے جو جواب دیا ، اس سے تاجر حیران رہ گیا۔ ملاحوں نے کہا کہ ہمیں پتہ تھا کہ یہ جزیرہ غیر آباد ہے ، لیکن دور سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آیا تو سمجھے شاید کوئی یہاں پھنسا ہوا ہے ، جسے بچانا چاہئے ۔ اس لئے ہم تمہارے پاس آئے ۔ پھر تاجر نے اپنا پورا قصہ سنایا تو ملاحوں نے یہ کہہ کر اسے مزید حیران کر دیا کہ جس جہاز سے تمہیں سمندر میں پھینکا گیا ، وہ آگے جا کر غرق ہو گیا ۔ یہ سن کر تاجر سجدے میں گر گیا ، رب کا شکر ادا کرنے لگا اور کہا کہ پاک ہے وہ ذات جس نے مجھے بچانے کیلئے تاجروں کے ہاتھوں سمندر میں پھنکوایا ۔ اپنے بندوں کے بارے میں وہی زیادہ جاننے والا ہے ۔ تنبیہ : حالات جتنے بھی سخت ہو جائیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں ۔ ہر حال میں اپنے رب پر بھروسہ رکھیے ، کیونکہ وہ بہتر جانتا ہے۔ ___________📝📝___________ منقول۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ۔ ___________📝📝___________