آخری منزل

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كَتَبَ اللَّهُ مَقَادِيرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ قَالَ وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ(مسلم شریف: ۳۶۵۳)

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: " اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی تقدیر آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل ہی لکھ دی تھیں اور فرمایا کہ ”اللہ کا عرش پانی پر تھا۔(تفہیم المسلم)

آیۃ القران

لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۵۷)(سورۃ المؤمن)

یقینی بات ہے کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے، لیکن اکثر لوگ (اتنی سی بات) نہیں سمجھتے(۵۷)(آسان ترجمۃ القران) یعنی: مشرکین عرب مانتے تھے کہ آسمان و زمین سب اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اتنی سی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ جو ذات اتنی عظیم الشان چیزیں عدم سے وجود میں لاسکتی ہے، اس کے لیے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ چنانچہ اس واضح بات کا بھی وہ انکار کرتے ہیں۔(آسان ترجمۃ القران)

Download Videos

اور کتابیں رو پڑیں

رات کے تقریبا ًساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ بظاہر میری آنکھیں بند تھیں مگر میں پوری طرح جاگ رہا تھا۔ آنکھیں موندھے ہوئے کروٹ بدل بدل کر میں تھک چکا تھا۔ بے خیالی میں میری آنکھیں یک لخت کھل گئیں۔ سامنے الماری پر میری بہت سی کتابیں ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں۔ کمرے میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ صرف گھڑی کی سوئی چلنے کی آواز آ رہی تھی۔ میری نظریں بہت دیر تک اس الماری پر ٹکی رہیں ۔اور میں اپنے ماضی میں کھو گیا۔ وہ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا۔ اور میں بورڈنگ میں قیام پذیر تھا۔ مجھے اس وقت کتابوں کا جنون سوار تھا ۔درسی کتابوں کے بعد خالی اوقات میں غیر درسی کتابیں پڑھنا میرا مشغلہ بن گیا تھا ۔چھٹی کے بعد جب سارے بچے کھیلنے چلے جاتے تو میں کتابیں لئے کمرے میں بیٹھ جاتا ۔یہاں تک کہ مغرب کی اذان ہو جاتی۔ میرے دوست جب بھی مجھے کہیں چلنے کو کہتے تومیں انکار کر دیتا ۔ وقت کم ہوتا تھا مگر میری لگن یہ تھی کہ کتابیں کم پڑ جاتی تھیں۔ میں کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتا۔ پیسے کم ہوتے تھے اس لیے میں نے لائبریری تلاش کرنی شروع کر دی۔ شام کا وقت تھا گھنی بازار سے ہوتے ہوئے میں ایک سنسان سڑک پر آ چکا تھا جومیری مطلوبہ جگہ تھی۔ کچھ دور چل کر ایک پتلی سی سڑک نظر آئی، دہانے پر لائبریری کا بورڈ لگا دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس روز میں نے وہاں سے بہت سی کتابیں لیں۔ اب میں ہفتے میں دو تین بارلائبریری جاتا اور کتابیں لا کر پڑھتا۔ جمعرات کو جب گھر جانا ہوتا ،تو بدھ کی شام ہی کتابوں کا انتظام کر لیتا ،میری دیکھا دیکھی اور دوستوں نے بھی کتابیں پڑھنا شروع کر دیا تھا سلسلہ چلتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے سال گزرنے کے قریب آ گیا مگر میں اس سے بے پروا تھا ۔اسکول چھوڑنے کے بعد بھی میرا مطالعہ کا شوق جاری رہا۔ تبھی گھڑی نے مجھے جھنجھوڑتے ہوئے ایک بجنے کا اعلان کردیا۔ میری آنکھیں اب بھی کتابوں کی الماری پر ٹکی ہوئی تھیں لیکن میں تخیلات کے سمندر سے نکل چکا تھا الماری پر ترتیب سے کتابیں کھڑی تھی۔ جنھیں میں بہت شوق سے خرید کر لایا تھا۔ اور دو تین سال گزر جانے کے بعد بھی کبھی پڑھنے کے لئے نہیں اٹھایا تھا ۔ نئی کتابوں کے ساتھ ساتھ بہت سی کتابیں ایسی بھی تھیں جو اپنے سرورق سے محروم ہو چکی تھیں۔ میں انہیں غور سے دیکھنے لگا۔ کچھ اوراق کتاب سے علیحدہ ہو کر الماری سے لٹک رہے تھے۔ ذرا دیر کے لئے میرے دل میں ہمدردی پیداہوئی اور میں اٹھنے ہی والا تھا کہ انہیں درست کروں مگر اچانک ایسا لگا جیسے اوراق چینخ پڑے ہوں۔ میاں رہنے دو ........رہنے دو ہمیں........ ہماری اس خستہ حالی کا تمہیں آج خیال آیا.... ارے تم وہی ہونا جو ہم سے محبت کا دم بھرا کرتے تھے.... اور ہاں تم کیا کہتے تھے، ہم کو کتابوں سے بہت محبت ہے ،کتابیں میری دوست ہیں.... کتابوں کے بغیر مجھے نیند نہیں آتی ........ارے او!بے وفا انسان :تمہیں کیا ہوگیا ،تم تو ایسے نہ تھے۔ ہمیں اس طرح رکھ کر سالوں سال کے لیے تو ہم سے بے پروا ہو گیا۔کیا تم نے ہمیں نمود و ریاکاری کے لئے رکھا ہے۔ کیا تو چاہتا ہے کہ تمہارے دوست و احباب الماری پر ہمیں رکھا دیکھ کر تمہیں ایک اچھا اور باذوق قاری تصور کریں ۔تمھیں ایک پڑھا لکھا آدمی سمجھیں............ چیختے چیختے ان اوراق کی آواز پر لرزہ طاری ہو گیا تھا ،لیکن پھر بھی ایک بے بس مظلوم کی طرح مزید اور کہنا شروع کیا۔ نہیں نہیں.... ہرگز نہیں تم ایسے نہیں ہو سکتے ....تمہیں اب کتابوں سے بالکل بھی محبت نہیں ۔تمہیں تو اب انٹرنیٹ سے محبت ہو گئی ہے ۔تم تو اب انٹرنیٹ کے بغیر ایک پل بھی نہیں رہ سکتے۔ تمہارے تکیہ کی وہ جگہ جہاں تم کبھی محبت سے ہم کتابوں کو رکھا کرتے تھے، آج وہ جگہ تم نے انٹرنیٹ کے اس ملٹی میڈیا موبائل کے کو دے رکھی ہے۔ ہاں....ہاں ابھی بھی تمھارے سرہانے موبائل رکھا ہواہے۔ خدارا اب تم ہم سے محبت کے دم بھرنا چھوڑ دو............ آواز کی لرزش میں وہ اوراق اور نجانے کیا کیا کہتے گئے۔ میری نگاہیں اب بھی اس الماری پر ٹکی ہوئی تھیں۔حقیقت نہ ہونے کے باوجود بھی وہ منظر مجھے حقیقی طور پر نظر آ رہا تھا۔ وہ اوراق میرے شب روز کی تلخ حقیقت کو بیان کرتے کرتے خاموش ہو چکے تھے۔ میں نے ایک بار پھر کوشش کی ۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں انہیں درست کرنے کے لئے اٹھتا۔ نمدیدہ اوراق خود بخود کتابوں میں سمٹ گئے اور کتابیں روپڑیں۔

Naats

اہم مسئلہ

اللہ رب العزت کے لیے لفظ ”خدا“ کا استعمال لفظ ”خدا“ فارسی زبان کا لفظ ہے ، جو کسی حد تک واجب الوجود کا ترجمہ ہے ، اللہ رب العزت کے لیے اس کا استعمال اکابر امت سے چلا آرہا ہے، لہذا اللہ تعالیٰ کے لیے اس کا استعمال جائز ہے، لیکن چوں کہ یہ لفظ " الله (اسم ذات) کا نہ نعم البدل ہے، اور نہ اس کے برابر ، اس لیے اللہ کی پاک ذات کے لیے اس کا اسمِ ذات اللہ کا استعمال سب سے بہتر ہے۔(اہم مسائل/ج:۵/ص:۵۴)