آداب تقریر و تصنیف

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَبْغَضَ الرِّجَالِ إِلَى اللَّهِ الْأَلَدُّ الْخَصِمُ(مسلم: ۲۶۶۸)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑھ کر بغض کے قابل وہ شخص ہے جو سخت جھگڑالو ہو ۔‘‘

آیۃ القران

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۳)(سورۃ التوبہ)

اے ایمان والو ! اگر تمہارے باپ بھائی کفر کو ایمان کے مقابلے میں ترجیح دیں تو ان کو اپنا سرپرست نہ بناؤ ۔ اور جو لوگ ان کو سرپرست بنائیں گے وہ ظالم ہوں گے۔(۲۳)(آسان ترجمۃ القران) یعنی: اسکا مطلب یہ ہے کہ ان سے ایسے تعلقات نہ رکھو جو تمہارے لئے دینی فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ بن جائیں، جہاں تک اپنے ایمان اور دینی فرائض کا تحفظ کرتے ہوئے ان کے ساتھ حسن سلوک کا تعلق ہے اس کو قرآن کریم نے مستحسن قراردیا ہے۔ (آسان ترجمۃ القران)

Download Videos

تحقیق المسائل

سوال:ذیل میں درج شدہ مسئلہ کے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔اُمید ہے تفصیلی دلائل سے واضح فرمائیں گے۔قرآن مجیدکے متعلق ایک طرف تویہ کہا جاتا ہے کہ یہ بعینہٖ اُسی صورت میں موجود ہے جس صورت میں حضور اکرمﷺ پرنازل ہواتھا۔ حتیٰ کہ اس میں ایک شوشے یا کسی زیر، زبر کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن دوسری طرف بعض معتبر کتب میں یہ درج ہے کہ کسی خاص آیت کی قراء ت مختلف طریقوں سے مروی ہے جن میں اعراب کا فرق عام ہے۔بلکہ بعض جگہ تو بعض عبارات کے اختلاف کاذکر تک کیا گیا ہے۔ اگر پہلی بات صحیح ہو تواختلاف قراء ت ایک مہمل سی بات نظر آتی ہے، لیکن اس صورت میں علماء کا اختلاف قراء ت کی تائید کرناسمجھ میں نہیں آتا اور اگر دوسری بات کوصحیح مانا جائے تو قرآن کی صحت مجروح ہوتی نظر آتی ہے۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اِعراب کے فرق سے عربی کے معانی میں کتنافرق ہوجاتا ہے۔یہاں میں یہ عرض کردینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ منکرین حدیث کی طرف میرا ذرہ بھر بھی میلان نہیں ہے بلکہ صرف مسئلہ سمجھنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کررہا ہوں۔ جواب: یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ قرآن مجید آج ٹھیک اسی صورت میں موجود ہے جس میں وہ نبیﷺ پر نازل ہواتھا اور اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بات بھی اس کے ساتھ قطعی صحیح ہے کہ قرآن میں قراء توں کا اختلاف تھا اور ہے۔ جن لوگوں نے اس مسئلے کا باقاعدہ علمی طریقے پرمطالعہ نہیں کیا ہے وہ محض سطحی نظر سے دیکھ کر بے تکلف فیصلہ کردیتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں اور ان میں سے لازماً کوئی ایک ہی بات صحیح ہوسکتی ہے،یعنی اگر قرآن صحیح طور پر حضورﷺسے نقل ہوا ہے تو اختلافاتِ قراء ت کی بات غلط ہے اور اگر اختلافِ قراء ت صحیح ہے تو پھر معاذ اللہ قرآن ہم تک صحیح طریقے سے منت

Naats

اہم مسئلہ

داڑھی کی توہین کفر ہے کسی ادنی سنت کی تو ہین اور اس کا مذاق اڑانا کفر ہے، تو داڑھی (جس کا رکھنا واجب اور شعائر اسلام میں سے ہے ) کی توہین ، مثلاً یوں کہنا ، داڑھی رکھنا شیطان کا کام ہے، یا داڑھی والے جھوٹ بولتے ہیں، یا داڑھی گالوں پر کوڑا اور جنگل ہے ، یا یہ کہے کہ داڑھی بکری کی دم ہے، بدرجہ اولیٰ کفر ہو گا۔(اہم مسائل/ج:۱/ص:۱۴۸)