آیۃ القران

اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ(۶۲)(سورۃ یونس)

یا درکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں۔ (۶۲)(آسان ترجمۃ القران) یعنی : اللہ کے دوست کی تشریح اگلی آیت میں کردی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان اور تقوی کی صفات رکھتے ہوں۔ ان کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ انہیں نہ آئندہ کا کوئی خوف ہوگا، اور نہ ماضی کی کسی بات کا کوئی غم ہوگا۔ کہنے کو یہ مختصر سی بات ہے، لیکن دیکھا جائے تو یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ دنیا میں اس کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ دنیا میں ہر انسان کو، خواہ وہ کتنا خوشحال ہو، ہر وقت مستقبل کا کوئی نہ کوئی خوف اور ماضی کا کوئی نہ کوئی رنج پریشان کرتا ہی رہتا ہے۔ یہ نعمت صرف جنت ہی میں حاصل ہوگی کہ انسان ہر طرح کے خوف اور صدمے سے بالکل آزاد ہوجائے گا۔(آسان ترجمۃ القران)

آسان ترجمہ قرآن جلد 3

حدیث الرسول ﷺ

سَمِعْتُ الْبَرَاءَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ يَنْقُلُ مَعَنَا التُّرَابَ، وَلَقَدْ وَارَى التُّرَابُ بَيَاضَ بَطْنِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: وَاللهِ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا، فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا، إِنَّ الْأُلَى قَدْ أَبَوْا عَلَيْنَا - قَالَ: وَرُبَّمَا قَالَ: إِنَّ الْمَلَا قَدْ أَبَوْا عَلَيْنَا - إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا، وَيَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ(مسلم شریف:کتاب الجہاد)

حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (غزوہ) احزاب کے دن ہمارے ساتھ مٹی اٹھارہے تھے اور مٹی کی وجہ سے آپ ﷺ کے پیٹ کی سفیدی اٹھی ہوئی تھی اور آپ ﷺ فرمار ہے تھے اللہ کی قسم (اے اللہ !) اگر تو ہمیں ہدایت نہ دیتا تو ہم نہ صدقہ دیتے اور نہ ہی ہم نماز پڑھتے (اے اللہ!) ہم پر سکینت نازل فرما کیونکہ ہم پر دشمن (اکٹھے ہو کر) ٹوٹ پڑے ہیں راوی کہتے ہیں کہ کبھی آپ ﷺ فرماتے ۔ کافروں نے ہماری بات ماننے سے انکار کر دیا ہے اور جب وہ فتنہ و فساد کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم انکار کرتے ہیں اور اس وقت آپ ﷺ کی آواز بلند ہوتی(تفہیم المسلم)

Download Videos

💐 *غم پروف دل*💐

. 💐 *غم پروف دل*💐 ملخص از کتاب مواعظ درد محبت ( عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم اختر صاحب) انتخاب و تلخیص از *حذیفہ مانگرولی* ___________________________ ظاہر کے عیش سے ضروری نہیں باطن کا عیش حاصل ہو جاۓ، ائر کنڈیشن ہماری کھالوں کو تو ٹھنڈا کر سکتا ہے مگر دل کی آگ کو نہیں بجھا سکتا، اگر اللہ ناراض ہو تو جسم لاکھ آرام میں ہو لیکن دل عذاب میں رہتا ہے اور چین نہیں پا سکتا ایک بزرگ فرماتے ہیں *دل گلستاں تھا تو ہر شے سے ٹپکتی تھی بہار* *دل بیاباں ہوگیا عالم بیاباں ہوگیا* ہمیں ظاہر کے عیش کی جتنی فکر ہے اس سے زیادہ اپنے قلب کو باخدا بنانے کی فکر ہونی چاہیے ورنہ ائرکنڈیشن میں بھی پریشانی اور مصیبتوں سے دل گرم رہے گا ہزاروں لاکھوں روپیوں میں بھی قلب غمزدہ، مشوش اور پریشان رہے گا مولانا رومی فرماتے ہیں *آں یکےدر کنج مسجد مست و شاد* *واں یکے در باغ ترش و نامراد* ‌ایک شخص مسجد میں چٹائی پر مست ہے اور ایک باغ میں ہے چاروں طرف پھول ہیں لیکن غموں کے کانٹوں سے غمگین و نامراد ہے یہ پھولوں میں رو رہا ہے اور وہ کانٹوں میں ہنس رہا ہے اب کوئی کہے کہ یہ تو اجتماع ضدین ہے، غم میں اللہ تعالی کیسے خوش کر دیتا ہے؟ تو میں کہتا ہوں کہ کیوں صاحب! یہ واٹر پروف گھڑیاں سوئزرلینڈ بنا رہا ہے چاروں طرف پانی ہی پانی ہے وہ اثر کیوں نہیں کر رہا ہے، یہ کیوں واٹرپروف ہے، اللہ اپنے عاشقوں کے قلب کو بھی غم پروف کر دیتا ہے جس کے دل پر اللہ تعالی کی رحمت اور نظر عنایت ہوتی ہے ہزاروں غم میں بھی وہ خوش اور بے غم رہتا ہے_

Naats

اہم مسئلہ

تیجہ ، دسواں اور چالیسواں کرنا کیسا ہے؟ بعض علاقوں میں میت کے ایصال ثواب کے لیے تیجہ، ساتواں، دسواں ، چالیسواں ، ششماہی اور سالانہ کا کھانا پکا کر کھلایا جاتا ہے، شرع اسلامی میں اس کی کوئی اصل نہیں، شیخ عبد الحق محدث دہلوی اپنی کتاب ” جامع البرکات میں تحریر فرماتے ہیں کہ بہتر آنست کہ نہ خورد بہتر یہ ہے کہ اس طرح کا کھانا نہ کھائے۔اگر کسی کو ایصالِ ثواب کرنا ہی ہو تو شرعی طریقے پر کریں نہ اس میں کھانوں کی قید ہو اور نہ ہی دن مخصوص کئے جائیں ، جو کچھ حسب وسعت میسر آئے غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیں، رسم فاتحہ اور قل خوانی وغیرہ بدعت ہیں۔(اہم مسائل/ج:۲/ص:۳۹)