آیۃ القران

وَ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ اِنَّهُمْ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰهَ شَیْئًا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَلَّا یَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۱۷۶)(سورۃ آل عمران)

اور (اے پیغمبر) جو لوگ کفر میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھا رہے ہیں، وہ تمہیں صدمے میں نہ ڈالیں، یقین رکھو وہ اللہ کا ذرا بھی نقصان نہیں کرسکتے، اللہ یہ چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کوئی حصہ نہ رکھے، اور ان کے لیے زبردست عذاب (تیار) ہے۔(۱۷۶)(آسان ترجمۃ القران)

حیات المسلمین

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ زَادَ ابْنُ عُيَيْنَةَ فَإِنَّهُ بَرَكَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى مَاءٍ فَإِنَّهُ طَهُورٌ(ترمذی: ۶۹۵)

حضرت سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو چاہیئے کہ کھجور سے افطار کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اور جسے ( کھجور ) میسر نہ ہو تو وہ پانی سے افطار کرے کیونکہ یہ پاکیزہ چیز ہے

Download Videos

تحقیق المسائل

سوال:ذیل میں درج شدہ مسئلہ کے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔اُمید ہے تفصیلی دلائل سے واضح فرمائیں گے۔قرآن مجیدکے متعلق ایک طرف تویہ کہا جاتا ہے کہ یہ بعینہٖ اُسی صورت میں موجود ہے جس صورت میں حضور اکرمﷺ پرنازل ہواتھا۔ حتیٰ کہ اس میں ایک شوشے یا کسی زیر، زبر کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن دوسری طرف بعض معتبر کتب میں یہ درج ہے کہ کسی خاص آیت کی قراء ت مختلف طریقوں سے مروی ہے جن میں اعراب کا فرق عام ہے۔بلکہ بعض جگہ تو بعض عبارات کے اختلاف کاذکر تک کیا گیا ہے۔ اگر پہلی بات صحیح ہو تواختلاف قراء ت ایک مہمل سی بات نظر آتی ہے، لیکن اس صورت میں علماء کا اختلاف قراء ت کی تائید کرناسمجھ میں نہیں آتا اور اگر دوسری بات کوصحیح مانا جائے تو قرآن کی صحت مجروح ہوتی نظر آتی ہے۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اِعراب کے فرق سے عربی کے معانی میں کتنافرق ہوجاتا ہے۔یہاں میں یہ عرض کردینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ منکرین حدیث کی طرف میرا ذرہ بھر بھی میلان نہیں ہے بلکہ صرف مسئلہ سمجھنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کررہا ہوں۔ جواب: یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ قرآن مجید آج ٹھیک اسی صورت میں موجود ہے جس میں وہ نبیﷺ پر نازل ہواتھا اور اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بات بھی اس کے ساتھ قطعی صحیح ہے کہ قرآن میں قراء توں کا اختلاف تھا اور ہے۔ جن لوگوں نے اس مسئلے کا باقاعدہ علمی طریقے پرمطالعہ نہیں کیا ہے وہ محض سطحی نظر سے دیکھ کر بے تکلف فیصلہ کردیتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں اور ان میں سے لازماً کوئی ایک ہی بات صحیح ہوسکتی ہے،یعنی اگر قرآن صحیح طور پر حضورﷺسے نقل ہوا ہے تو اختلافاتِ قراء ت کی بات غلط ہے اور اگر اختلافِ قراء ت صحیح ہے تو پھر معاذ اللہ قرآن ہم تک صحیح طریقے سے منت

Naats

اہم مسئلہ

روزہ دار کا کان میں تیل یا دوا ڈالنا روزے کی حالت میں کان میں دوا یا تیل ڈالنے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، کیوں کہ فقہاء متقدمین کے قول کے مطابق کان میں ڈالی ہوئی چیز کیلئے دماغ تک پہنچنے کیلئے گزرگاہ موجود ہے، مگر جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ کان اور دماغ کے درمیان کوئی گزرگاہ نہیں ہے، اگر ایسا ہی ہے تو کان میں دوا ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا ، اس لئے بہتر یہی ہے کہ بحالت روزہ کان میں دوا ڈالنے سے احتیاط برتی جائے(اہم مسائل/ج:۴/ص:۹۶)