خطبات مسلم پرسنل لا بورڈ

حدیث الرسول ﷺ

سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلَاةِ وَإِذَا كَانَ الْبَرْدُ عَجَّلَ(نسائی شریف: ۵۰۰)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب گرمی ہوتی تو رسول اللہ ﷺ نماز ظہر کو ٹھنڈی کر کے پڑھتے تھے اور جب سردی ہوتی تو جلدی پڑھتے ۔

آیۃ القران

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَفْعَلُوْۤا اِلٰۤى اَوْلِیٰٓئِكُمْ مَّعْرُوْفًا كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا(۶)(سورۃ الاحزاب)

ایمان والوں کے لیے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں، اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ اس کے باوجود اللہ کی کتاب کے مطابق پیٹ کے رشتہ دارو دوسرے مومنوں اور مہاجرین کے مقابلے میں ایک دوسرے پر (میراث کے معاملے میں) زیادہ حق رکھتے ہیں الا یہ کہ تم اپنے دوستوں (کے حق میں کوئی وصیت کر کے ان) کے ساتھ کوئی نیکی کرلو۔ یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔(۶)(آسان ترجمۃ القران) یعنی : یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ اگرچہ حضور نبی کریم ﷺ تمام مسلمانوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں، اور آپ کی ازواج مطہرات کو سب مسلمان اپنی ماں سمجھتے ہیں، لیکن اس وجہ سے آنحضرت ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کو میراث کے معاملے میں کسی مسلمان کے اپنے رشتہ داروں پر فوقیت حاصل نہیں ہوئی، چنانچہ جب کسی کا انتقال ہوتا ہے تو اس کی میراث اس کے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم ہوتی ہے، آنحضرت ﷺ یا آپ کی ازواج مطہرات کو اس میں سے کوئی حصہ نہیں دیا جاتا، حالانکہ دینی اعتبار سے آپ اور آپ کی ازواج مطہرات دوسرے رشتہ داروں سے زیادہ حق رکھتی ہیں۔ جب آنحضرت ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کو ان کے دینی رشتے کے باوجود میراث میں شریک کیا گیا تو منہ بولے بیٹے کو محض زبان سے بیٹا کہہ دینے کی بنا پر میراث میں کیسے شریک کیا جاسکتا ہے ؟ البتہ اگر ان کے ساتھ نیکی کا ارادہ ہو تو ان کے لیے اپنے ترکے کے تہائی حصے کی حد تک کوئی وصیت کی جاسکتی ہے۔(آسان ترجمۃ القران)

Download Videos

کسی کا مؤمن کے گھر میں پیدا ہونا اور کسی کا کافر کے گھر میں ! خدا کی نا انصافی ہے ؟

سوال : ایک شخص مسلمان کے گھر پیدا ہو تو اسکے مسلمان ہونے کے چانسز 95 پرسنٹ ہیں، جبکہ دوسرا کافر کے گھر پیدا ہو ا سکے مسلمان ھونے کے چانس 3 پرسنٹ ھیں ، کیا یہ بے انصافی نہیں؟ کہ ایک کو جنت میں جانے کے 95 پر سنٹ چانس ملیں جبکہ دوسرے کو صرف 3 پر سنٹ جواب : بلوغت کے بعد عقل کافر کے گھر میں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی ملتی ہے اور مسلمان کے گھر پیدا ہونے والے بچے کو بھی ۔ اللہ کی عطاء کردہ عقل کے ذریعہ اللہ کی نشانیوں پر غور کر کے اللہ تک پہنچنے کا راستہ کافر کے گھر پیدا ہونے والے بچے کو بھی میسر ہے۔ اسی طرح بے شک ماحول کا اثر ہوتا ہے لیکن اس وقت پوری دنیا میں ذرائع ابلاغ کے عام ہونے کی وجہ سے دعوت اسلام کی صدا ہر جگہ پہنچ چکی ہے۔ اتمام حجت ہو چکا ہے ، اسلامی تعلیمات و اخلاقیات کا حسن ہر طرح کے کافر کو اسلام کا گرویدہ کر رہا ہے ایسی صورتحال میں اگر کوئی شخص بالغ عاقل ہو کر بھی اسلام و ایمان نہ لائے تو کس کا قصور ہے۔۔۔؟ اگر اسلام کی دعوت یا عقل کافر کے بچوں کو نہیں دی جاتی تو پھر انصاف پر کوئی سوال اٹھایا جا سکتا تھا۔ دوسرا جواب : جو کہا جا رہا ہے کہ ایک شخص جو مسلمانوں کے گھر پیدا ہوا ہے ، اسکے مسلمان ہونے کے چانس 95 پرسنٹ ہیں ، جبکہ دوسرا جو کافر کے گھر پیدا ہوا ہے ، اس کے مسلمان ہونے کے چانس 3 پرسنٹ ہیں۔ ایک شخص کا مسلمانوں کے گھر پیدا ہونا اور دوسرے کا کافر گھر پیدا ہونا یہ مسلمان اور کافر ہونے کیلیے معیار نہیں ہے ، اصل معیار ایمان اور عمل صالح ہے ، اگر ایک شخص مسلم گھرانے میں پیدا ہوا ہے ، لیکن اسکا اللہ کی ذات پر ایمان ہی نہیں ہے ، تو وہ مسلمان کے گھر پیدا ہونے کے باوجود مسلمان نہیں ہو سکتا، جبکہ دوسرا جو کافر کے گھر پیدا ہوا ہے ،اگر وہ صاحب ایمان ہے ، تو کافر کے گھر پیدا ہونے کے باوجود وہ شخص مسلمان کہلایا جائیگا ۔ تیسری بات : ہمیں کسی کے بارے کوئی بھی حتمی علم نہیں ہے ، کہ کون بندہ مسلم ہے اور کون نہیں اسلیے یہاں عدل و انصاف کا سوال ہی بے سود ہے ، اگر ہمیں کسی کافر کے بارے حتمی علم ہوتا کہ یہ آخر دم تک کافر رہیگا ، کافر ہو کر مریگا ، یا ایک شخص کے بارے حتمی طور پر علم ہوتا کہ یہ پکا مسلمان ہے اور تازیست مسلمان ہی ہوگا اور مسلمان ہو کر مریگا تب ہم سوال اٹھا سکتے تھے ، لیکن جب ہمیں دونوں کے بارے کوئی حتمی علم ہی نہیں کہ کون جنتی ہے اور کون جہنمی تو انصاف کا سوال بھی بے معنی ہو جاتا ہے۔ مثال : ایک شخص پر قتل کا الزام ہے ، اور جنہوں نے اس پر الزام لگایا ہے وہ قاضی سے مطالبہ کر رہیں کہ ہمیں انصاف دلایا جائے اور اس قاتل کو سزادی جائے لیکن قاضی اور جج ان سے شواہد کا مطالبہ کریگا قطعی علم کا مطالبہ کریگا کہ آپ اس کے چشم دید گواہ ہیں ؟ جب تک ملزم شخص کے بارے قطعی اور حتمی علم نہیں ہو جاتا اس کے بارے میں ٹھوس ثبوت نہیں مل جاتے تب تک قاضی انصاف کی کرسی نہیں لگائیگا اور محض دعوی کی بنیاد پر انصاف نہیں کریگا ۔ اسی مثال پر بندے کے کافر و مسلمان ہونے کو منطبق کریں کہ اس دنیا میں ہم سے کسی کو بھی کسی کے بارے کوئی قطعی اور حتمی علم نہیں ہے ، کہ یہ بندہ مسلمان ہو کر مریگا اور یہ کافر ہو کر جب کسی کے بارے کوئی قطعی علم ہے ہی نہیں تو ہم اللہ (جج) سے کس طرح مطالبہ کر سکتے ہیں کہ اس سے انصاف کیا جائے۔ نا انصافی پر ایویڈنس ہوں تب انصاف کیا جائیگا نہ ! محض تخیلات کی بنا پر انصاف کی عمارت کھڑی نہیں کی جاسکتی۔ ہاں ! بروز قیامت چونکہ ہم میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کا چشم دید گواہ ہو گا اس وقت اگر کسی سے نا انصافی ہو تو اللہ سے مطالبہ کیا جا سکتا ہے ، کہ اسے انصاف دیا جائے لیکن اس دن تو کسی سے نا انصافی ہی نہیں ہو گی بلکہ ہر کسی کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جائیگا وما اللہ بظلام للعبيد -

Naats

اہم مسئلہ

داڑھی تراشنے اور منڈوانے والے کے یہاں دعوت کھانا؟ حدیث میں آیا ہے کہ فاسق لوگوں کی دعوت قبول نہ کی جائے اور داڑھی منڈوانے اور ترشوانے والے لوگ بھی چوں کہ فاسق ہیں، اس لئے اگر مصلحت کے خلاف نہ ہو تو اُن لوگوں کی دعوت رد کی جاسکتی ہے، خاص کر جب کہ مجلس دعوت میں منکرات ہوں ، تو ممانعت کا حکم اور تاکیدی ہو جاتا ہے۔(کتاب النوزل/ج:۱۶/ص:۷۵)