خطباتِ علی میاں رحمہ اللہ جلد 3

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ يَدْعُو بِهَا ، وَأُرِيدُ أَنْ أَخْتَبِئَ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي فِي الْآخِرَةِ (بُخاری شریف: ۶۳۰۴)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کے لئے ایک ( مقبول ) دعا ہے ( پس ہر نبی نے اپنی وہ مقبول دعا دنیا میں مانگ لی) اور میں چاہتا ہوں کہ اپنی ( مقبول ) دعا کو ریزرو رکھوں، آخرت میں میری امت کی شفاعت کے لئے(تحفۃ القاری)

آیۃ القران

اَلَمْ تَرَ اَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللّٰهِ لِیُرِیَكُمْ مِّنْ اٰیٰتِهٖ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ(۳۱)(آسان ترجمۃ القران)

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کشتیاں سمندر میں اللہ کی مہربانی سے چلتی ہیں، تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے ؟ یقینا اس میں ہر اس شخص کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو صبر کا پکا، اعلی درجے کا شکر گزار ہو۔(۳۱)(آسان ترجمۃ القران)

Download Videos

شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کڑوی کھیر کھاگئے

ایک مرتبہ حضرت مدنی کی کسی صاحب نے دعوت کی ، اور کھانے کے ساتھ دیگر اشیاء کے ساتھ تھوڑی سی کھیر بھی تیار کی ،جب حضرت مدنی نے اس کھیر کو کھایا تو بہت کڑوی تھی ۔ ممکن ہے مغالطہ سے ایلوا وغیرہ کوئی کڑوی چیز اس میں گر گئی ہو۔ حضرتِ مدنی نے اس خیال سے کہ میزبان کو تکلیف ہوگی اور اس کا دل دکھے گا، اس سے کھیر کے کڑوا ہونے کا ذکر نہیں کیا اور اس سے فرمایا کہ کھیر کی دیگچی لے آؤ ۔وہ اس کو لے آیا ۔ آپ نے کھانے میں شریک ہونے والے۔ ساتھیوں سے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آج کی یہ تمام کھیر میرے حصہ کی ہے آپ حضرات میں سے کوئی نہ کھائے ۔ چناچہ آپ نے وہ تمام کھیر اس انداز سے کھالی کہ میزبان اور تمام رفقاء یہ سمجھتے رہے کہ کھیر بہت اچھی لگی،لیکن جب میزبان نے دیگچی میں لگی ہوئی تھوڑی سی کھیر تبرکاً کھائی تو معلوم ہوا کہ کھیر تو بہت کڑوی تھی میزبان اور تمام رفقاء کو نہایت تعجب ہوا اور اُن کے حیرت کی انتہا نہیں رہی اس بات سے کہ حضرت نے میزبان کی دل آسائی کے لئے اور اسے دل شکنی سے بچانے کے لئے شدید تکلیف برداشت کی کہ نہایت کڑوی کھیر ساری کھاگئے اور کسی کو ظاہر بھی نہ ہونے دیا۔۔۔ یہ تھے ہمارے اکابرین

Naats

اہم مسئلہ

آج کل بہت سے مسلم نوجوان اپنی کلائی پر کالا دھاگا یا زنجیر یا کڑا باندھتے اور پہنتے ہیں، اگر ان چیزوں کا پہننا یا باندھنا کسی غلط عقیدہ پر مبنی ہے ، یعنی ان سے فائدہ پہنچتا ہے، تو یہ حرام ہے، اور اگر محض زینت کے طور پر ہے تو یہ مکروہ تحریمی ہے۔(اہم مسائل/ج:۱/ص:۲۱)