آیۃ القران

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ (۱) يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُم بِسُكَارَىٰ وَلَٰكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ (۲)(سورۃ الحج)

اے لوگو! اپنے پروردگار (کے غضب) سے ڈرو۔ یقین جانو کہ قیامت کا بھونچال بڑی زبر دست چیز ہے۔ ﴿۱﴾جس دن وہ تمہیں نظر آجائے گا ، اُس دن ہر دُودھ پلانے والی اُس بچے ( تک ) کو بھول بیٹھے گی جس کو اُس نے دُودھ پلایا ، اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا بیٹھے گی ، اور لوگ تمہیں یوں نظر آئیں گے کہ وہ نشے میں بدحواس ہیں، حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہوگا ۔ ﴿۲﴾(آسان ترجمۃ القران)

خطباتِ فقیر 38

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِي اللَّهُ عَنهُ قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُّ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:يَارَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قَالَ : " أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنتَ صَحِيحٌ شَحِيْحٌ تَخْشَى الْفَقْرَ، وَتَأْمُلُ الغنَى، وَلَا تُمْهِلْ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلُقُومَ قُلْتَ: لِفُلانٍ كَذَا وَ لِفُلانٍ كَذَا، وَقَدْ كَانَ لِفُلَانِ,(متفق عليه)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کس قسم کے صدقہ کا ثواب زیادہ ہے؟ فرمایا تندرستی، بخل کی موجودگی ، افلاس کے ڈر اور غنا کی امید کی حالت میں صدقہ خیرات کرنا اور صدقہ کرنے میں سستی نہ کیجئے یہاں تک کہ جب سانس حلق کی طرف آنےلگے تو پھر تو کہنا شروع کرے کہ فلاں کو اتنا اور فلاں کو اتنا حالانکہ وہ فلاں کا ہو چکا،(روضةالصالحین ج١ ص٢٨٦)

Download Videos

اے اہل دنیا ! تم کو لحد یاد ہے ؟

اے اہل دنیا! جان لو کہ تم کو بھی ایک دن مرنا ہے ـ موت کے بعد اٹھنا اور اپنے نیک و بد اعمال کی جزا اور سزا کو پہنچنا ہے ـ پس دنیا کے چند روز جینے پر مت پھولو اور موت کو کبھی نہ بھولو ـ دنیا مصیبت کا گھر ہے ـ فنا ہونا اس کا مشہور ہے اور دھوکہ اس کا شعار ہے ـ اس کی ہر ایک چیز کا انجام زوال ہے اور اس کا ہمیشہ کسی کے پاس رہنا محال ہے ـ جب آدمی کو اس میں تھوڑا آرام آتا ہے تو اس کے عوض برسوں کا رنج سامنے آتا ہے ـ موت ہر ایک کے سر پر قائم ہے اور اس کا ذائقہ چکھنا سب کو لازم ہے ـ خدا تعالٰی کے بندو! آج تمہارا دنیا میں ایسا حال ہے جیسا تم سے پہلے لوگوں کا تھا جو تم سے عمر میں ذیادہ، طاقت میں قوی، آبادی کثیر اور مکانات میں اعلٰی تھے ـ مگر زمانہ کے انقلاب سے آج ان کی آواز بھی نہیں نکلتی ـ ان کے جسم قبروں میں سڑ گئے، شہر اجڑ گئے اور مکانات گر گئے ـ یا وہ محالت ( محلات) عالیشان گاؤ تکیے اور مخملی فرش تھے یا اب پتھر اور اینٹیں، خاک گور اور گوشئہ لحد ہے ـ کیا تمہیں کچھ شبہ ہے کہ جیسا اُن کا حال ہوا وہی تمہارا نہ ہوگا ؟وہی تنہائی نہ ہوگی اور وہی خاک میں یہ جسم کیڑوں کی خوراک نہ ہوگا ؟؎ سنورتے تھے کہ اک عالم کی آنکھیں ہم کو دیکھیں گی خبر کیا تھی ہماری مجلسیں ماتم کو دیکھیں گی! ستم ہے جامہ ہستی کا اس تن سے جدا ہونا لباس تنگ ہے اترے گا آخر دھجیاں ہوکر! جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹی ہے زندگی آپ ہی آپ کٹتی ہے نظر غور سے جو دنیا کی حالت دیکھی برپا ہم نے ہر روز یہاں کی قیامت دیکھی

Naats

اہم مسئلہ

مردوں کی روحیں شب جمعہ میں اپنے اپنے گھر نہیں آتیں روایت غلط ہے۔(فتویٰ رشیدیہ کام/ج:۱/ص:۴۶۸)